ہم اکثر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے متعلق لکھتے وقت ان کے ارد گرد پاکستان مخالف مختلف کرداروں کاذکر بھی کرتے رہتے ہیں۔ قائد اعظم کے یوم وفات١١ ستمبر کے موقعہ پر اسلام کے شیدائی ہونے اور ان کو سیکولر ثابت کرنے والوں کے منہ پر تماچہ ، تاریخ میں موجود تحریروں کے ذریعے مارنے اور ایک کھوٹے سکے کا ذکر بھی کریں گے۔یہ کھوٹا سکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک نام نہا دستون سر سکندر حیات ہیں۔ سر سکندر حیات سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی میں تھے۔ پھریونینسٹ پارٹی مسلم لیگ میں ضم ہو گئی ۔ یہ بھی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ یہ پنجاب آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے ۔ متحدہ ہندوستان میںپنجاب اسمبلی کے وزیراعلیٰ تھے۔قراداد لاہور کا اصل مسودہ ان ہی ،سر سکندر حیات نے تیار کیا تھا، جسے بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے منٹو پارک کے مسلم لیگ کے اجتماع میں پیش کیا تھا۔اس مسودہ میں ہندستان میں ایک مرکزی حکومت کے تحت کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن جب مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں اس پر بحث ہوئی تو قائد اعظم نے واحدمرکزی حکومت کے ذکرکو کاٹ دیا۔ اس پر سر سکندر حیات سخت برہم ہوئے۔ انہوں نے گیارہ مارچ اکتالیس کو پنجاب اسمبلی میں کہا تھا کہ ان کا قائد اعظم کے ہندوستان کی تقسیم ، یعنی پاکستان کا نظریہ، کہ ہندوستان میں ایک طرف ہندوراج اور دوسری طرف مسلم راج سے مختلف ہے۔ بقول ان کے، کہ میں اِس تباہ کن نظریہ کی ڈٹ کر مخالفت کروں گا۔اللہ کا کرنا کہ مخالفت کیا کرتے کہ اگلے سال سر سکندر حیات پچاس ال کی عمر میں انتقال کر گئے۔اس طرح قائداعظم کو پاکستان کے دو قومی نظریہ سے اختلاف کرنے والے ایک کھوٹے سکے سے نجات ملک گئی۔
سر سکندر حیات نے قائد اعظم کے خلاف دل کی پڑھاس نکالنے کے لیے بے بنیاد الزام لگائے۔ ایک دفعہ لائل پور(فیصل آباد) میں ایک خلاف واقعہ بیان دیا۔ قائد اعظم کے پاکستان کے دو قومی نظریہ سے محبت کرنے والے ،ملک برکت علی صاحب نے خودسنا اور قائد اعظم کو انیس سو اکتالیس میں لکھا کہ سر سکندر حیات نے لائل پور(فیصل آباد) میںاپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ” میں ایک گناہ گار شخص ہو سکتا ہوں لیکن باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں۔جب کہ آپ کے قائداعظم دن میں ایک بار بھی نماز نہیں پڑھتے” اے کاش کے اسلام کے شیدائی قائد اعظم کی زندگی پر نمازوں کے متعلق کوئی کتاب ہوتی یا شاید ہو مگرہمارے علم میں نہیں۔خیر یہ کام ستمبر کے ماہنامہ سالہ عالمی ترجمان قرآن کے مضمون نگار احمد سعید صاحب سابق صدرشعبہ تاریخ،ایم اے او کالج نے لاہور کر دیا۔وہ لکھتے ہیں۔
قائد اعظم نے ١٩٣٥ء میںعید الفطر کی نماز ممبئی گرائونڈ میں ادا کی۔اس موقعہ پر ہندوستان میں افغانستان کے سفیرمارشل شاہ ولی بھی موجود تھے۔(١) یکم مئی ١٩٣٦ء کو قائد اعظم نے بادشاہی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔ہنگری کے مفتی اعظم علامہ آفندی نے بھی ان کی ہمراہی میں نماز ادا کی۔(٢)۔٣ نومبر ١٩٤٠ء کو آزاد میدان پارک ممبئی میں نماز عید کے بعد مسلمانوں سے خطاب کیا۔(٣)۔٣ مارچ ١٩٤١ء آسٹریلیشا مسجد لاہور میں نماز عصر ادا کی۔اس موقعہ پر آپ نے چوڑی دار پاجامہ اور اچکن زیب تن کررکھی تھی۔ چوں کہ مسجد میں دیر سے پہنچے تھے۔اس لیے صفیں پھلانگ کر آگے جانے کی بجائے پچھلی صف میں بیٹھے تھے۔نماز کے بعد اپنے جوتے خود اُٹھائے۔(٤)٢٩ اکتوبر١٩٤١ء کو آپ نے عید الا ضیٰ ناگ پور میں ادا کی۔اس موقعہ پر لوگ خطبے اور دعاء کے بعد آپ سے ہاتھ ملانے کی لیے بے چین تھے۔آپ مائیک پر تشریف لائے اور سب کو عید مبارک کہنے کے بعد نہایت شگفتہ انداز میں کہا کہ:اگر آپ سب لوگ میرے سے ہاتھ ملائیں تو میرا ہاتھ یہیں رہ جائے گا۔(٥) آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی اجلاس کے موقعہ پر قائد اعظم نے ١٩٤٣ء میں نماز جمعہ سندھ مندرستہ الا اسلام کی مسجدمیں ادا کی۔(٦)٣٠ نومبر ١٩٤٤ء کو نئی دہلی میں نماز عید اد کی اور اس موقعہ پر مسلمانوں سے خطاب بھی کیا۔ اسی طرح (٧)٥ نومبر ١٩٤٥ء کو نماز عید الاضیٰ کے بعد ممبئی کے مسلمانوں سے سے خطاب کیا۔دسمبر ١٩٤٦ء میں قائد اعظم لندن تشریف لے گئے۔
اس موقعہ پر ممتاز حسن صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ممتازحسن نے اس سفر کا حلال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: (٨)لندن میں قائد اعظم نے اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانا پسندکیا جہاں عام مسلمان نماز پڑھتے ہوں۔چنانچہ آپ نے ایسٹ اینڈ کی مسجد میں، جو غریب مسلمانوں نے آباد کی ہوئی تھی،نماز ادا کی۔قائد اعظم کی آمد پر خطبہ ہو رہا تھاتو کچھ لوگ کھڑے ہو گئے۔اس پر آپ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور کہا میں دیر سے آیا ہوں اسلیے مجھے جہاں جگہ ملی وہ ہی میرے لیے مناسب ہے۔(٩)اس موقعہ پر زیڈ اے سلہری بھی قائد اعظم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ان کی روایت کے مطابق کہ قائد اعظم آخری صف میں بیٹھے بڑے روایتی انداز میں خطبہ پوری توجہ سے سن رہے تھے۔میں نماز میں ان کے ساتھ ہی کھڑاتھا۔ایک شخص نے نماز کے بعد ان کے جوتوں کے تسمے باندھنے چاہے مگر آپ نے اس ایسا نہ کرنے دیا۔(١٠)١٢ جولائی ١٩٤٦ء کو قائد اعظم نے حیدر آباد دکن کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔اسلامیہ کالج لاہور میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک جلسے میں علامہ مشرقی صاحب کے اذان دینے کا واقعہ تو ١٣ جنوری ١٩٤٦ء کی بات ہے۔
جب قائد اعظم نے دن بارہ بجے اذان سنی تو کہا کہ یہ تو نماز کا کوئی وقت نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص نماز نہیںپڑھتا، اس کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ کون سی نماز کس وقت پڑھی جاتی ہے۔ (١١)قائد اعظم کی دین سے لگائو کے اور کئی وقعات ہیںمثلاً ١٣ اگست ١٨٩٧ء کو انجمن اسلام میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت منانے کے سلسلے میں محمد جعفری کی تحریک اور نواب محسن الملک کی زیر صدارت جلسہ ہوا۔ اس میں ہرطبقے کے مسلمان، عرب، مغل، میمن اوربوہرے شریک ہوئے۔اس پروگرام میں ٢١ سالہ محمد علی جناح بھی شریک تھا۔(١٢)چار سال بعد ٣٠جون ١٩٠١ء میں بروز اتوار اپنے اسکول ہال میں انجمن اسلام نے رسولۖ اللہ یوم ولادت منایا۔ اس چار سو کے قریب مسلمان شریک ہوئے۔اس میں بھی قائد اعظم شریک ہوئے۔
(١٣)٣٢ سال بعد ٧ دسمبر ١٩٣٣ء روز بدھ لندن میٹرو پول ہوٹل میں مسلم سوسائٹی برطانیہ نے رسولۖ اللہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سر اکبر حیدری کی زیر صدارت ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب میں علامہ اقبال ،عباس علی بیگ،لارڈ ہیڈلے (نو مسلم)ڈاکٹر شفاعت احمد خان، اے ایچ غزنوی اور سردار اقبال علی شاہ صاحبان کے علاوہ ایران، البانیہ،مصر اور سعودی عرب کے وزرا بھی شامل تھے۔اس میں ٣بھی قائد اعظم کا نام نمائیں تھا۔(١٤)١٤ سال بعد ٢٥ جنوری ١٩٤٨ء کو کراچی بار ایسوی ایشن نے عید میلاد النبیۖ تقریب کا اہتمام کیا۔ قائد اعظم نے اس کی صدارت کی۔ قائد اعظم نے اس موقعہ پر فرمایا” اسلام نہ صرف روسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لیے ضابطہ بھی ہے جو اس کی زندگی کے رویے بلکہ اس کی سیاست واقصادیات وغیرہ پر محیط ہے”(١٥)یہ بھی اسلام سے محبت کا واقع ہے کہ ١٩١٢ء میں بحیثیت رکن امپریل قانون ساز کونسل میں اسلامی قانون وقف علی الاولاد کا مسودہ قائداعظم نے پیش کیا اور اسے قانونی حیثیت دلوائی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کی آئینی تاریک میں یہ پہلا موقع تھا کہ کونسل نے ایک پرائیویٹ ممبر کے بل کو قانونی شکل دی تھی۔
یہ کام قائد اعظم نے کیا ۔ شرم کا مقام ہے کہ ڈھگ قائد اعظم کو سیکولر کہتے ہیں۔(١٦) اس سے ثابت ہوا ۔٢١ سال سے عمر کے ٧٢ سال تک قائد اعظم مذہبی مجالس میں شریک ہوتے رہے۔ نمازیں پڑھتے رہے۔ حصور کو خراج عقیدت پیش کرتے رہے۔ تو بے رحم سیکولر ڈھگو، اسلام کے شیدائی میرے قائد اعظم کو تم جعلی طور پر سیکولر ثابت کرتے ہو۔ نا عاقبت اندیش پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے برصغیر کے مسلمانوں کو عطیہ ،مثل مدینہ مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے وسائل سے بہر ہ مند بھی ہوتے ہوں۔ لا الہ الا اللہ کے نام سے بننے والے پاکستان کے بانی کو سیکولر ثابت کرنے کی سازشیں بھی کرتے ہوں۔ خبر دار! جب تک اس ملک میں اسلام کے شیدائی موجود ہیں تمھاری سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ شاید اب ایک پھر علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے اللہ نے ایک فرد کو بھیج دیا ہے۔ یہ ہی تمھارے سینے پر مونگ دلے گا۔ جیسے تم نے پچھلے ٧٠ سال سے اسلام کی شیدائیوں کے سینوں پر مونگ دلتے رہے ہوتمھارے ساتھ ساتھ ،قائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ کے کھوٹے سکے بھی بے نقاب ہوتے رہیں گے۔ انشاہء اللہ۔
(حوالاجات)
١۔رضوان احمد،قائد اعظم پیپرز ١٩٤١ء صفحہ ٦٤۔٢۔گفتار ِ قائد اعظماحمد سعید صفحہ ١٥١۔٣۔ گفتارِ قائد اعظم صفحہ٢٥١۔٤۔بے تیخ سپاہی نواب صدیق علی خان صفحہ٤٢٨۔٥۔صادق قصوری، تحریک پاکستان اور مشائخ عظام ٢٢۔ ٢٣۔٦۔سہ ماہی صحیفہ قائد اعظم نمبر لاہور صفحہ ٧٦٤۔ سیہ ماہی صحیفہ قائد اعظم نمبر صفحہ ٦٤۔٨۔بیدار ملک، یاران مکتب جلد دوم پاکستان اسٹڈی سنٹر لاہور صفحہ ٤٢۔٤٣۔٩۔ریاض احمد ۔ورلڈ آف قائد اعظم محمد علی جناح جلد ١ول صفحہ ٤۔١٠۔ریاض احمدصفحہ ٦٨۔١١۔وحید احمد نیشن وائس جلد ہفتم قائد اعظم اکادمی صفحہ ١٥٣۔١٢۔احمد سعید قائد اعظم مسلم پریس کی نظر میں۔قائد اعثم اکادمی ١٩٧ صفحہ۔