تحریر : انجینئر افتخار چودھری اس بار ٢٥ دسمبر کو چاچا سانتا کچھ زیادہ ہی چھایا رہا۔دوسرا نمبر قائد اعظم ثانی کا تھا۔اس ہجوم میں اصلی قائد اعظم بڑی مشکل سے کہیں سر اٹھاتے دکھائی دئے۔ایک آدھ گانے میں تیرا احسان ہے کی لئے تھی آدھا تو اتار دیا اور باقی کے لئے ہم کھوٹے سکے لگے ہوئے ہیں۔ مشیر کاظمی نے قبر اقبال سے آ رہی تھی صدا یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں ۔ستر کی دہائی میں ایک دہائی دیتے ہوئے لکھی تھی۔میں شاعر تو نہیں اگر ہوتا تو آج میں بھی جناب آصف علی زرداری کی آمد پر کچھ کہتا اور وہ کچھ کہتا کہ لوگوں کو سمجھ آ جاتی۔ستم ظریفی تو یہ ہے جو شخص کرپشن کے الزامات سے لتھڑا ہو اہے اس نے تو قائد کے مزار پر حاضری دی اور جو قائد اعظم ثانی کا خطاب پا کر جھومتا ہے اسے توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بانی ء پاکستان کی قبر پر جا سلامی دیتا۔اپنے باپ سے آگے کوئی نہیں ہوتا ہمیں اس پر تو کوئی اعتراض نہیں کہ وہ اپنے والد محترم میاں شریف کی قبر پر گئے اور ماں سے پیار لیا۔یہ ایک عظیم عبادت ہے جو انہوں نے کی لیکن میاں نواز شریف اگر آج وہاں چلے جاتے تو پاکستان کی نمائیندگی ہو جانی تھی۔دوسری جانب پاکستان کی حقیقی اپوزیشن کے قائد عمران خان کا بھی فرض بنتا تھا کہ وہ اس دن کو منانے باقائدہ وہاں جاتے اور مزار قائد پر حاضری دیتے۔کیا ہی اچھا ہو یوم ولادت بانی ء پاکستان پر پاکستان کی قیادت وہاں سلامی دینے جائے تا کہ ہمارے دشمنوں کو پتہ چل جائے کہ یہ قوم اپنے لیڈر کے فرمودات کے سائے میں آگے بڑھنے کا عزم رکھتی ہے۔
بانی ء پاکستان کی قبر پر سلامی دینے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ہم آپ کو نہیں بھولے اور آپ کی جد وجہد کو ہم بھلا نہیں پائے۔بڑے مزے کی بات بتائوں کہ ایک بار سردار عبدالقیوم نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال کے بارے میں کوئی اونچ نیچ کر دیا، نوائے وقت نے طوفان مچا دیا۔اس بارے میں جب جنرل حمید گل سے بات کی تو انہوں نے کہا در اصل ہم اپنے لیڈروں کو پس پشت ڈال چکے ہیں اگر ہم نے چودھری رحمت علی کو عزت و احترام دیا ہوتا تو آج اقبال نشانہ نہ بنتے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ابھی تک طے نہیں کر پائے کہ ہمارے اصل قومی ہیرو کون ہیں۔یاد رہے چودھری رحمت علی کی پاکستان کے لئے کوششوں کا اعتراف انہوں نے جدہ میں میری جانب سے منعقدہ تقریب میں ایک پیغام بھیج کر کیا تھا۔لیڈر کے احترام کا تقاضہ کیا ہے؟آپ اس کے اصولوں کو باہر سے آنے والوں کو بھی بتائیں اور خود بھی اس پر عمل کریں۔قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا حصول ممکن بنایا۔
اگرچہ پاکستان کے بارے میں ہمارے قائدین کی مختلف آراء تھیں۔کوئی یہ کہہ رہے تھے کہ ہند مسلمانوں کا ہے اسے مکمل طور پر انگریز نے ہم سے لیا تھا ہمیں چاہئے کہ پورا ہی لیں۔کانگریسی سوچ یہی تھی کہ ہندوستانی نیشلزم کو کسی صورت نقصان نہ پہنچایا جائے۔دو قومی نظرئے کہ بارے میں اگر کسی کو کوئی اعتراض یہ ہے کہ سید مودودی اس کے خلاف تھے تو انہیں ان کی کتاب مسئلہ قومیت دیکھ لینی چاہئے جو اس وقت مسلم لیگ کے لئے ایک ہتھیار سے کم نہیں تھی۔جس میں بر صغیر کے مسلمانوں کو ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کو بتایا گیا تھا کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی یہی اقبال کا کہنا تھا وہ مسلم امت کی نشاط ثانیہ کے داعی تھے۔انہی کے درمیان ایک چودھری رحمت علی بھی تھے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کون پہلے معرہ زن ہوا ؟یہ سوال کوئی راکٹ سائینس نہیں ہے ١٩١٥ میں اسلامیہ کالج لاہور کی بزم شبلی میں ایک نوجوان نے یہ سوچ دی تھی۔ویسے تو اس سے پہلے بھی کسی نے سوچا ہو گا کہ ملک ہو جگہ ہو جہاں مسلمان اپنا نظام نافذ کر سکیں مگر ایک تگڑی آواز چودھری صاحب کی تھی۔قائد اعظم محمد علی جناح کا مقابلہ انگریز سے تھا متعصب ہندو سے تھا اور اس کے علاوہ ان مسلمانوں سے بھی تھا جو کانگریسی سوچ کے حامل تھے۔
Second World War
سچ پوچھئے جب دوسری بڑی جنگ جاری تھی انگریز کو لالے پڑے ہوئے تھے اس نے فیصلہ کیا کہ جنگ میں ہمارا ساتھ دو ہم آپ کو آزاد کر دیں گے۔ایسے میں ہندوستان نے تو آزاد ہونا ہی تھا لیکن یہ مسلمانوں کے لئے ایک بڑا چیلینج تھا کہ ہم اپنے آپ کو کیسے بچائیں۔جمہوریت گنتی کا نام ہے اس میں ٥١،٤٩ کو رگڑ کے رکھ دیتا ہے۔یہ مسلم لیگ کی بڑی کامیابی تھی کہ اس نے جدا گانہ انتحابات کا مطالبہ منوا کر اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائیندہ تنظیم منوا لیا۔قائد اعظم کمال کے شخص تھے انہوں نے مسلمانوں کی بڑی کمزوریوں کو اپنی دور اندیشی اور حکمت والی سوچ کے پروں کے نیچے چھپا لیا۔انگریز کے ٹوڈی مسلمان بڑے تگڑے تھے۔قائد اعظم ان سے لڑے بغیر آگے نکلنا چاہتے تھے دوسری جانب ١٩٤٥ میں انہیں ٹی بی کا عارضہ لاحق تھا اللہ بخشے کرنل الہی بخش کا کہ انہوں نے یہ راز سینے میں ہی رکھا اور قائد نے بھی کسی کو نہیں بتایا تیسری بڑی شخصیت ان کی بہن تھی جو یہ جانتی تھی کہ بھائی موت کا مسافر ہے۔اگر یہ معاملہ ہندو قیادت کو ہو جاتا تو تقسیم کے عمل کو لٹکا کر پاکستان کو وہیں ختم کر سکتے تھے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ قائد اعظم کے پاس دوسرے درجے کی قیادت نہیں تھی؟کیا وہ لیاقت علی خان پر اعتماد نہیں کرتے تھے؟یہ سوال میں جنا ب الطاف حسین قریشی اور ڈاکٹر صفدر محمود پر چھوڑتا ہوں کہ وہ بتائیں ان سے اس لئے کہ سارے اہل قلم چھوٹے لوگوں کو بڑا کرنے میں مصروف ہیں۔وہ ذاتیات کی لڑائی میں مگن ہیں۔کاش قائد اعظم محمد علی جناح کے پاس بھی نہرو،ولبھ بھائی پٹیل جیسے لوگ ہوتے۔کاش کوئی پنجابی لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کو سمجھا بجھا کر پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر کرپان نہ نکالنے دیتا جس کو لہرا کر ماسٹر جی نے کہا تھا کہ پاکستان دا فیصلہ میری کرپان کرو۔کون سی مصیبت تھی؟کیا تھا رولہ۔سکھوں کے مقدس ترین مقامات ننکانہ صاحب میں تھے اس میں کوئی شک نہیں جس طرح ہمارے لئے مقدس ترین مکہ اور مدینہ ہیں اسی طرح ننکانہ صاحب،حسن ابدال ان کے لئے اہم ترین مقامات تھے۔کوئی انہیں قائل کیوں نہیں کر سکا؟کیا قائد اعظم کے پاس ایسی ٹیم نہیں تھی۔
ادھر بنگال میں تو حسین شہید سہروردی نے کمال کر دکھایا مگر اس جانب پاکستان کے پورے صوبے پنجاب سے ایک بھی مسلم پنجابی نہیں ملا جو سکھوں کو ہاتھ میں لے لیتا؟اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ہزارے وال دلیر ثابت ہوئے انہوں نے سرحدی گاندھی کو خاک چٹوا دی۔ادھر کشمیر میں چودھری غلام عباس اور سردار قیوم اٹھ کھڑے ہوئے۔(اللہ بھلا کرے محسود قبائل کا)جو آج کل پھینٹا کھا رہے ہیں۔پنجاب بانجھ کیوں رہا؟میں سمجھتا ہوں یہ اس بیمار فرد کا عظیم کارنامہ تھا جو اس نے انتہائی مشکل وقت میں راتوں کو جاگ کر ہمیں پاکستان لے دیا۔قائد اعظم محمد علی جناح واقعی آپ کے احسانات ہیں اور رہتی دنیا تک ہم آپ کے احسان مند ہیں۔کاش آج ان احسانات کا اظہار کرنے سراج الحق،عمران خان نواز شریف بھی ادھر ہوتے۔اللہ تعالی آپ کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے اور ہمیں آپ کے فرمودات پر عمل کرنے کی ہمت دے۔قائد اعظم اب تو یہ پاکستان ایسا ہے کہ ایک وقت کا کھانا ٣٤ لاکھ میں کھایا جاتا ہے آپ نے تو چائے بھی منع کر رکھی تھی۔قائد اعظم زندہ باد پاکستان پائیندہ باد