یرغمال کہانی کے کردار معجزوں کی تلاش میں

Pakistan Flag

Pakistan Flag

رابرٹ بوائنٹن نے کہاتھا” کہانیاں وقوع پذیر نہیں ۔انہیں تخلیق کرنا پڑتاہے۔ تھوڑی دیر کو ماضی کے سمندر میں غوطہ لگائیے، تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھئے اور یاد کیجیے آج سے کئی دہائیاں پہلے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے اُس سماج میں کس طرح ایک انوکھی اورلاجواب کہانی کی بنیاد رکھی تھی۔ علامہ محمد اقبال کے خواب سے عملی طور پرشروع ہونے والی اس کہانی کو مخالفین نے دیوانے کا خواب قرار دیا، لیکن جب جذبے سچے ،ہمت جوان ہواور سب سے بڑی بات قائداعظم محمدعلی رہنما ہو توبیسویں صدی کا سب سے لازاول معجزہ، ایسی زندہ و جاوداں اور شہکار کہانی معروض وجود میں آتی ہے جسے دنیا تخلیق پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔ یہ تخلیق پاکستان کی کہانی اور اس کے کرداروں یعنی برصغیر کے مسلمانوں کی خوش نصیبی اور اللہ تعالی کی خاص مہربانی تھی جو انہیں محمدعلی جناح جیسا بے نظر تدبیر وفراست رکھنے والا، صاحب کرداراور تاریخ سازلکھاری اور ہیرو میسر آیا۔ جس نے ایک طرف اپنی اعلیٰ سیرت و کردار اور خلوص محبت سے اپنی کہانی کے کرداروں اور آزادی کے متوالے مسلمانوں کو ایک سیسہ پلائی دیوار بنا ڈالا تو دوسری طرف اپنے پر مغز دلائل، آئینی جدوجہد اور فکری برتری سے اس کہانی کے ولن، انگریزوں اور ہندووں کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا۔

پاکستانیوں کے محبوب قائد اور عظیم محن نے دینا پر ثابت کر دکھایا کہ کسی قوم کو اس کی حقیقی پہچان دے کر ایک زندہ اور جیتی جاگتی کہانی تخلیق کرنا اوردنیا تاریخ میں امر ہوجاناصرف عظیم لوگوں کا ہی خاصاہے۔ بقعول امریکی مورخ سٹینلے والپرٹ: ”بہت کم شخصیات تاریخ کے دھارے کو قابل ذکر انداز میں موڑتی ہیں۔اس سے بھی کم وہ افراد ہیں جو دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جسے ایک قومی ریاست تخلیق کرنے کا اعزاز حاصل ہو، جناح نے یہ تینوں کا م کر دکھائے”۔ تخلیق پاکستان کے بعد تعمیرنو اور ترقی کی کی کہانی کا سفر ابھی شروع ہی ہوا تھاکہ، قابل اعتماد ساتھیوں کی کمی کے باوجود سنگین اور سنگلاخ مسائل سے آخری دم تک بے جگری سے لڑنے والاعظیم قائد اپنی بیماری کے ہاتھوں ہار گیااور قوم کو روتاہوا چھوڑ کر اپنے سفر آخرت پر نکل پڑا۔ ان کے کچھ عرصہ بعد قائد ملت کو بھی شہید کردیا گیا۔ تحریک پاکستان کے دوران ہندوستان کے کونے کونے میں نعرے کی شکل میں گونجے والااصغرسودائی کی نظم کا یہ مصرع، پاکستان کا مطلب کیا لاالہٰ الااللہ، پہلے ہی پاکستان کی منزل اور نصب العین کا تعین کر چکا تھا، یعنی ایک فلاحی،اسلامی اورجمہوری ریاست کا قیام۔

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

بانی پاکستان اپنا کام مکمل کرچکے تھے آگے کی منزل طے تھی اور راستہ واضح ،بس قائد کے پیش رو حکمرانوں کو اپنے عظیم راہنما کے نقشے قدم پر چلنے ،ان کے نظریہ تعمیر ترقی کو اپنانے ، ان کے فرمودات پر عمل کرنے اور جمہوریت کو حقیقی معنوں میں جمہور تک منتقل کرنے کی ضرورت تھی۔پاکستان کی کہانی کو شاندار طریقے سے پروان چڑھنے کے لے قائد جیسے ہی مخلص ہیرو اور راہنما کی اشد ضرورت تھی۔ مگر ان کے بعد آنے والاہر حکمران خود کو قائد اعظم ثانی کہلوانے کا شدید آرزو مند نظر تو آیا لیکن بدقسمتی سے نہ صرف ان کے نقش قدم پر چلنے سے گریزاں رہا بلکہ محمد علی جناح جیسی قیادت، اوصاف، جذبے، بصیرت اور فہم فراست بھی سے عاری بھی نظر آیا۔ روز اول سے ہی حکمران اور طاقت ور طبقے، مادی اقتدار کی خاطر ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آ نے لگے۔ مخلص قیادت تھوڑے ہی عرصے میں ناپید دکھائی دینے لگی۔ اس کے برعکس چین جو آزادی کے وقت اس خطے میں ترقی کے لحاظ سے پچاس سال پیچھے تھا مازوے تنگ جیسی لیڈر شپ نے اپنے ملک کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیا۔جبکہ ہمارے ہاں حکومتوں اور حکمرانوں کی لوٹ مار غیر سنجیدہ رویوں اورڈنگ ٹپائو اقدامات کی وجہ سے ایک فلاحی، اسلامی جمہوری ریاست کی منزل دور سے دور تر ہوتی گئی اور پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے قائد کا خواب شرمندتعبیر ہوئے بغیر ہی بکھیرنے لگا اور ٹوٹ گیا اور پھر پاکستان کی کہانی میں وہ بدترین موڑ بھی آیا جب خود قائدکے پاکستان کو بھی ٹوٹنے سے نہ بچایا سکا۔

معجزوںکے انتظار اور اچھے وقتوں کی آس میں وقت گرزتا رہا، لیکن نہ تو پاکستان کو اسلامی سانچوں میں ڈالا جاسکا اور نہ ہی طاقت ور، غالب، غاصب اور مفادپرست طبقوں نے خستہ حال جمہور کو حقیقی جمہوریت کی ہواتک لگنے دی۔ پیدائشی جمہوری ملک میں حقیقی جمہوریت ، اورمخلص عوامی لیڈر شپ کے شدید فقدان کی وجہ سے قومی وسائل اور قومی ذرائع پیداوار پر قابض مٹھی بھر افراداور خاندانوں اور ان کی سرپرستی میں چلنے والے مافیاز نے ہرطرح کے وسائل سے مالا مال پاکستان کو اپنی آہنی پنجوں میں جکڑکربے دردی سے گدھوں کی طرح نوچنا اور کھوکھلا کرنا شروع کردیا ، دھرا دھر اپنی تجوریاں بھرنے لگے اور پھر بھرتے ہی چلے گئے ۔یوںقیام پاکستان کے نصب العین کے برعکس ظلم، جبر اور استحصال پر مبنی ایسا نظام تشکیل پاتا رہا جس کے ہاتھوںپاکستان کے روشن مستقبل کی کہانی، ترقی اور خوشحالی سب کچھ یرغمال بنتے چلے گئے۔ صرف یہ ہی نہیں ا پنی نااہلیوں اور نا لائقیوں سے ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ جن کی بدولت ملک دشمن عناصر اور سامراجی طاقتوں کو بھی جی بھر کر مستفیض ہونے کے وافر مواقع ملتے چلے گئے۔ ملک کو دولخت کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے سے لے کر ،جاری موجودہ دہشت گردی اور فرقہ وارنہ انتہاپسندی کی پشت پناہی تک، ہمارے اندرونی وبیرونی دشمنوں خصوصا ہندوستان نے ہمارے ابتر حالات سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اور یہ سلسلہ ہنوز، زور شور سے جاری و ساری ہے۔

نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ا ج پاکستان کی یرغمال کہانی کے اسکرپٹ میں ولن، اوراینٹی ہیروزچھائے نظر آتے ہیں۔کہیں لیٹروں،منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں، ملاوٹ خوروں،ڈاکووں، چوروں، غاصبوں اور بھتہ خوروں کے شکل میں تو کہیں عالمی مالیاتی اداروں، دہشت گردوں، سامراجی طاقتوں کے غنڈوں اور دوست نما دشمنوں کے روپ میں وہ اندھیر نگری مچارکھی ہے کہ قائد کی روح بھی اپنے پاکستان کایہ حال دیکھ کر تڑپ جاتی ہوگی۔ یہ اس استحصالی اور یرغمالی نظام کی کرامات ہیں کہ یہاں بارہ مہینے نایاب قسم کے بحرانوں کا میلہ لگا رہتا ہے، ایک سے بڑھ کر ایک بحران ایسا ہمارے گلے پڑتا ہے کہ پھر الوادع کہنے کا نام نہیں لیتا۔ کبھی بجلی نایاب ، تو کبھی گیس اور پڑول غائب ۔ فیکٹریاں، کارخانے بند، حکومت بے بس تو غریب عوام بدحال اور نڈھال، جائیں تو کہاں جائیں بس معجزوں کی تلاش میں زندگی کے دن پورے کررہے ہیں۔ غیرملکی قرضوں کا ناقابل برادشت بوجھ، گردشی قرضوں کا روگ، خالی خزانہ اور شدید ترین خسارے میں چلنے والے سفید ہاتھی، ایسے میںاس یرغمالی نظام کی مکمل اصلاح کی کہانی تخیلق کیے بغیر غریب عوام کی اجڑی ہوئی زندگیوں کو آبادکرنے توقع کرنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں اب دیکھئے یہ معجزہ بھی عوام کو کب نصیب ہو۔

Ahmad Nawaz Ishaq

Ahmad Nawaz Ishaq

تحریر: احمد نواز