تحریر : خنیس الرحمن ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو قائد اعظم ریڈیو پر آئے اور پاکستان کے قیام کا اعلان کیا۔مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی ۔ہرطرف سے قافلے نکل پڑے ۔راستے میں سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع کردیے ۔داستانیں اتنی ہیں کہ کتابوں کی کتابیں بھی لکھی جائیں تو ختم نہ ہوں ۔ایک واقعہ گوش گزار کرتا ہوں۔
ایک عورت ہیں پاکستان کے قیام کا سن کر اپنے تین بچوں کے ہمراہ نکل پڑتی ہے ۔راستے میں سکھ راستہ روک لیتے ہیں اور کہتے ہیں بی بی کہاں جاتی ہے کہتی ہے پاکستان جاتی ہوں ۔وہ ظالم کہنے لگے اچھا تو نے پاکستان جانا ہے جا لیکن ایک کام کرنا ہوگا وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا۔وہ عورت کہتی ہے بیٹے کٹوا دوں کی ،جان دے دوں گی لیکن پاکستان مردہ باد نہیں کہوں گی۔
اس عورت کے سامنے تینوں بچوں کو شہید کردیا جاتا ہے اور اسے ظالم کہتے ہیں جا اب تو پاکستان میں۔وہ عورت مہاجر کیمپ میں پہنچتی ہے وہاں سے قائد اعظم کا گزر ہوتا ہے کہتے ہیں اس عورت کو کیا ہوا ہے کبھی روتی ہے اور کبھی ہنستی ہے لوگ کہتے ہیں پاگل ہوگئی ہیں وہ عورت کہتی ہے پاگل نہیں ہوئی روتی اس لئے ہوں تین بیٹے کٹوائے ہیں ہنستی اس لئے ہوں کہ محمد ﷺ کے دیس میں پہنچ گئی ہوں۔
یہی نہیں ہزاروں عزتیں لٹیں۔۔بچوں کو نیزوں پر چڑھایا گیا۔۔۔لاکھوں کا خون بہا ۔۔۔تب جا کر کہیں یہ ملک بنا ۔یہ ہجرت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تصور کی جاتی ہے۔
یہ چمن مسلم کے خاک و خون سے سینچا گیا خواب بن کر سینکڑوں آنکھوں میں دیکھا گیا
جب قائد اعظم سے پوچھا جاتا کہ پاکستان کامنشور کیا ہوگا وہ یہی کہتے پاکستان کا منشور چودہ سو سال پہلے جو تھا وہی آج ہے۔لیکن آج ہم اس منشور کو بھول گئے۔۔اس دستور کوبھول گئے۔ہم لاالہ الا اللہ کی پہچان بھول گئے ۔ہم اسلام کو بھول گئے۔ہم نظریہ اسلام کو بھول گئے کیونکہ نظریہ اسلام ہی پاکستان ہے۔
جب پاکستان بنا تھا تو گاندھی نے کہا تھا پاکستان کو مار دینی ہے تو ثقافت کی مار دینی ہے یہی وجہ آج وہ ہمیں ثقافت کی مار دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔انہوں نے ہماری کیبلز پر اپنے ڈرامے اور فلمیں چلائی جس کے نتیجہ میں ہمارے گھروں کے ماحول بدل گئے ہیں۔ہمارے گھروں میں قرآن کی بجائے موسیقی گونجتی ہے۔ہمارے لباس بھی ہندوانہ ،ہمارے ہئیر اسٹائل بھی ہندوانہ اور ہمارے ہیروز محمد بن قاسم ،ایوبی،موسی بن نصیر نہیں بھارتی اداکار ہیں۔
آج ہمارے نصابوں سے نظریہ پاکستان کو نکال دیا گیا ہے۔آج ہمارے نصابوں سے محمد بن قاسم کو نکال کر لارڈ میکالے کا دیا ہوا نظام تعلیم ڈال دیا گیا ۔علامہ اقبال کی منظوم کو نکال کر فراق گو رکھپوری کی نظموں کو ڈال دیا گیا ۔آج لا الہ الا اللہ کی بجائے یہ کہا جا رہے کہ پاکستان کا مطلب پڑھنے لکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔آج اسلاف کی یادوں کو تازہ کرنے کا وقت ہے۔نظریہ پاکستان کو اجاگر کرنا جماعتوں و تنظیموں کا کام نہیں بلکہ ہر محب وطن پاکستان کا کام ہے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا