تحریر: میر افسر امان
ہم کالموں میں اکثر لکھتے رہتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے دوران میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی کرشماتی لیڈر شپ کے اندر ہر قسم کے لوگ شامل ہو گئے تھے۔ گو کہ تحریک پاکستان میں غالب حصہ مخلص لوگوں کا تھا۔مگر کچھ لوگ اپنے اپنے عزاہم اور مفادات اور مجبوری کے تحت بھی شامل ہو گئے تھے۔ ایک ذبردست انقلابی اور مذہبی تحریک سے علیحدہ رہ کر ان کی کوئی وقت نہیں رہتی تھی۔ ان میں قادیانی، کیمونسٹ اور جاگیردار تھے۔ کاذب مرزا غلام احمد قادیانی کو انگریز اور یہود نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے تخلیق کیا تھا۔ انگریز حکومت کے دوران ہر میدان میں عام مسلمانوں سے آگے آگے رکھاگیا تھا۔ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ سر ظفراللہ تھا۔ جس نے ریڈ کلف سے مل کر گرداس پور کو بھارت میں شامل کرایا تھا۔ بیروکریسی اور فوج میں قادیانی بہت زیادہ تھے۔ امریکا کی سفارش پر قادیانی اب تک پاکستان میں اعلیٰ عہددوں میں موجود ہیں اور پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے اور قائد اعظم کو بدنام کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
پاکستان بنتے وقت قا دیانیوں بظاہر ٹھگی کرتے ہوئے پاکستان کی حمایت اور اندر ہی اندر اپنے نکتہ نظر کی آبیاری کی۔ اس امر کی تصدیق ( رسالہ الفضل قادیان مئی ١٩٤٧ء صفحہ نمبر ٢) سے ہوتی ہے اس کا مفہوم یہ ہے” مرزا قادیانی اپنی رُویا بیان کرتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم عارضی ہے ۔ساری قومیں متحد رہیں تو احمدیت کے لیے بہتر ہے ۔ہم اگر ہندوستان کی تقسیم پر رضا مند ہوئے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے ،اور پھر کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح جلد متحد ہو جائیں۔”قادیانی ٹھگ ہیں۔ مسلمانوں کے دھوکا دیتے ہیں کہ ہم بھی دوسرے مسلمانوں کے فرقوں کی طرح ایک فرقہ ہیں۔
جب کہ یہ مسلمانوں کو کافر اور خود کو مسلمان کہہ کر عام لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔یہ پاکستان کو قادیانی اسٹیٹ بنانے میں کوششیں کرتے رہے ہیں۔ جب پاکستان بن رہا تھا تو بھارت میں کیمونسٹ تحریک زوروں پر تھی۔کیمونسٹ بھی مجبواً تحریک پاکستان میں شامل ہو گئے۔ پاکستان کی نئی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے” راولپنڈی سازش کیس” میں لینن ایوارڈ یافتہ مشہور شاعر فیض احمد فیض بھی شامل تھا۔جاگیر دار تو اقتدار کے رسیا ہوتے ہیں ۔ان کو اسلام ، قائد عظم اور ملک سے کیا لینا دینا۔ اگر پاکستان کی مرکزی اور صوبائی پارلیمنٹوں کے ممبران کی تاریخ دیکھیں تو جاگیرداروں کے رشتہ دار ہر پارلیمنٹ میںتسلسل سے ملیں گے۔ ان کو ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی میں مجائدین کو قتل کرنے کے عوض انگریز نے جاگیریں عطا کی تھیں۔یہ سب لوگ قائد اعظم کے پہلے بھی مخالف تھے اور پاکستان بننے کے بعد اور اب بھی مخالف ہیں۔ پاکستان میں شکست کے بعد ،کیمونسٹ اب سیکولرسٹ اور لبرل گئے ہیں۔یہ سب لوگ قائد اعظم کو سیکولرثابت کرنے کی بے کار کوششیںکرتے رہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم تو ماڈرن تھے ان کو اسلام سے کیا واسطہ۔ پاکستان تو قائد اعظم نے ہندوئوں سے معاشی غلامی سے نجات کے لیے بنایا تھا۔
آیئے تاریخ کی روشنی میں دیکھیں کہ ہمارا پیارے قائد اعظم کا قرآن سے کیسا رابطہ تھا۔ وہ کیسے قرآن سے ہدایت لے کر پاکستان کو لا الہ الااللہ کے کلمے کی بنیاد پر یکجا کر کے پاکستان بنایا تھا۔ قائد اعظم مرتے دم تک قرآنی نظام کی بالادستی پر نہایت زبردست اور مستحکم عقیدہ رکھتے تھے۔ ان معلومات سے قائد اعظم کے مخالفوں کے جھوٹے پروپیگنڈا کی ہوا نکلے گی۔
قائد اعظم نے عید الفطر ،نومبر ١٩٣٩ء کے موقع پر فرمایا”مسلمانوں! ہمارا پروگرام قرآن پاک میں موجود ہے۔ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرا م کے ہوتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پیش نہیں کر سکتی عبدالرحمان منشی” حوالہ کتب”قائد اعظم کا مذہب اور عقیدہ”( مطبوعہ لاہور ١٩٨٦
ء صفحہ ١٩٣)۔
قائد اعظم نے ١٩٤١ء عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد میں طلبہ سے خطاب میں جو کہا وہ ان کی قرآن میںقرآن فہمی کی دلیل ہے۔”میں نے قرآن مجید اور قوانین اسلامیہ کے مطالعے کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔زندگی کا روحانی،پہلوہو یا معاشرتی، سیاسی ہو یا معاشی،غرض کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی احکامات سے باہر ہو۔قرآن کریم کی اصولی ہدایات اور طریقہ کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین بلکہ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے لیے حسن سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصہ ہے اس سے بہتر نا ممکن ہے”سردار خان” حیات قائد اعظم ”( مطبوہ لاہور صفحہ٢٢٧)
١٩٤٣ء میں ال انڈیا مسلم لیگ کراچی کے اجلاس میں قائد اعظم نے فرمایا ” وہ کونسا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہو جاتے ہیں؟ وہ کونسی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ…وہ چٹان ….وہ لنگر…خدا کی کتاب قرآن مجید ہے…ایک خدا…ایک رسولۖ… ایک امت… سعید راشد، پروفیسر ”گفتار وکردار قائد اعظم”( مطبوعہ لاہور١٩٨٦ء صفحہ٥١٣)
میاں بشیر احمد نے دہلی میں اپنی پریشان ظاہر کی تو قائد اعظم نے فرمایا”میز پر قرآن کی طرف اشارا کرتے ہوئے فرمایا”ہمیں پریشان اور مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے جب یہ کتاب ہماری راہ نمائی کے لیے ہمار ے پاس موجود ہے ”سعید راشد، پروفیسر کی کتاب” گفتار و کردار قائد اعظم ”(مطبوعہ لاہور صفحہ ١٢٩)
١٥ مارچ شیلانگ کے مسلمانوں سے خطاب میںقائد اعظم نے فرمایا”ہم کوچاہیے کہ ہم اپنی مقدس کتاب قرآن مجید کی طرف رجوع ہو جائیں۔ہم کوحدایث اور اسلام کی ذبر دست روایات پر عمل کرنا چاہیے۔اگر ہم قرآن مجید کے احکامات پر عمل پیرا ہوں اور حدیث اور اسلامی روایات کو صحیح طور پر سمجھیں تو ہماری ہدایات کے لیے ان میں تمام احکامات اور ہدایات موجود ہیں۔محمد حنیف کی کتاب ”اسلام اور قائد اعظم”( مطبوعہ لاہور صفحہ ١٧)
١٩٤٧ء میں دہلی میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور دوسرے علما ء پاکستان کے آئین کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں۔” پاکستان میں قرآنی آئین ہو گا۔ میں نے قرآن پاک کامع ترجمہ پڑھا ہے اور میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ قرآنی آئین سے بڑھ کر کوئی
آئین نہیں ہو سکتا” سعید راشد، پروفیسر کی کتاب ”گفتار اورکردار قائد اعظم ”(مطبوعہ لاہور صفحہ ٥١٦)
اور پر بیان کیے گئے بیانات کے علاوہ قائد اعظم کے تحریک پاکستان کے دوران اور پاکستان بننے کے بعد ایسے لاتعداد بیانات کتابوں میں موجود ہیں جو قائد اعظم کے مخالفوں کے منہ پر تماچہ ہیں۔ قائد اعظم پاکستان میں قرآنی ہدایات اور علامہ شیخ محمد اقبال شاعر اسلام کے خواب کے مطابق، مدینہ کی اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے ۔ نو مسلم علامہ اسد اور مولانا موددی سے ریڈیو پاکستان سے تقریریں بھی کروائی تھیں۔قرآن اور حدیث کی روشنی میں ایک ادارہ ” ریکنسٹریکشن آف اسلامک تھاٹ”بھی قائم کیا تھا مگر پاکستانی حکومت میں گھسے قادیانیوں،سیکولرسٹوں اور جاگیرار داروں نے اس میں رکاوٹ ڈالی۔ اس وقت ہمارے ازلی دشمن بھارت نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوتوا پر تو موددی کودوسری بار بھارت کا وزیر اعظم بنا دیا۔ اب دیکھتے ہیں،بانی پاکستان ،قرآن کے شیدائی حضرت قائد اعظم کے پاکستان کے پاکستانی عوام کب قائد اعظم کے دو قومی نظریہ پر عمل کرتے ہوئے، اسلامی نظام قائم کرنے والی سیاسی جماعت، ”جماعت اسلامی پاکستان” کو اقتدار میں لاتے ہیں۔تاکہ بیلنس برابر ہو جائے۔
تحریر: میر افسر امان