ہندو اور انگریز اُردو زبان کو اس لیے ناپسند کرتے تھے کہ اس کا رسم الحظ عربی اور فارسی سے ملتا جلتا تھا اور یہ دونوں زبانیں اسلامی ثقافت کی نمائندہ ترین زبانیں تھیں ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی مادری زبان اگر چہ اُردو نہیں تھی ۔لیکن بر صغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کے تناظر میں وہ اُردو کی اہمیت اور ضرورت سے پو ری طرح واقف تھے ۔ لہذا وہ اپنی آخری سانس تک اردو زبان کے دفاع اور نفاذ کیلئے کوشاں رہے ۔ 1934ء میں قائد اعظم نے مسلم لیگ کی انتخابی مہم کیلئے جو دستور تیار کیا ۔ اس میں واضع طور پر دفعہ نمبرIIمیں لکھا تھا کہ اُردو زبان اوررسم الحظ کی حفاظت کی جائے ۔ آزادی سے قبل جب کانگریس نے ہندی ہندوستان کی مہم چلائی ۔تو تب بھی 1935ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے برملا اعلان کیا تھا کہ اس اسکیم کااصل مقصد اردو کا گلا دبانا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جنا نے 19اپریل 1935ء کو ایک اخباری بیان میں کہا کہ اگر ہم اُردو زبان کے تحفظ کیلئے سینہ سپر نہیں ہوں گے تو ہندی کو بطور قومی زبان ہم پر مسلط کر دیا جا ئیگا ۔ اکتوبر1937ء میں سٹی مسلم لیگ بجنور یو پی کے ایک جلسہ میں قا ئد اعظم نے کہا کہ اسلام اور اُردو مسلما نوں نے اتحاد کے بنیادی عناصر ہیں۔
جنوری 1938ء میں مسلم لیگ کلکتہ کے ایک جلسے میں کانگریسی ذہنیت کاپر دہ چاک کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں بر صغیر میں اپنے وجود کی پائیدار ضمانت درکار ہے تو ہمیں اردو کے تحفظ کیلئے جدو جہد کرنا ہو گی ۔ ہندو مسلم مفاہمت درکار ہے تو ہمیں اردو کے تحفظ کیلئے جدو جہد کرناہو گی ۔ ہندو مسلم مفاہمت کے حوالے سے جو اہر لال نہرو سے مذاکرات کے دوران قائد اعظم نے 17مارچ 1938ء کو جواہر لال نہرو کے نام ایک خط میں ہندو مسلم مفاہمت کیلئے جو چودہ نکات بیان کئے تھے ۔ اس میں بھی واضع طور پر کہا گیا تھا کہ مسلمان اردو کو ہندوستان کی قومی زبان دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ چاہیے ہیں کہ اردو زبان کو نہ محدوعد کیا جائے اور نہ ہی کسی قسم کا نقصان پہنچایا جائے ۔اکتوبر1938میں سندھ صوبائی لیگ کانفرنس میں انہوں نے کانگریس کی صوبائی حکومتوں کے مسلم دشمن اقدام کی مخالفت کی اورفرمایا کہ اردو ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی مادری زبان اور ہندوستان میں رابطے کی زبان ہے۔
اس لیے اسکی حفاظت ہمارا قومی فرض ہے ۔ ہم اردو کے خلاف اقدام کو اسلام ، مسلم ثقافت اور ادب کے خلاف اقدامات تصور کرتے ہیں ۔ 1940ء میں قرار دادِپاکستان کی منظوری کے بعد انہوں نے واضع طور پر اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی کیونکہ اردو ہی برصغیر کی واحد زبان ہے کہ جس میں نہ صرف مذہب ثقافت اور ادب کے حوالے سے مسلمانان برصغیر کاعظیم علمی سرمایا محفوظ ہے ۔بلکہ یہ رابطہ کی زبان بھی ہے ۔ اس لیے ضروری ہو گا کہ اسے پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت دی جائے ۔ دسمبر 1943ء کوکراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جب نواب بہادر یار جنگ نے قائد اعظم کی تقریر کا نہایت پر جوش انداز میں ترجمہ پیش کیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے برجستہ کہا کہ آج مسلم لیگ کو اسکی زبان میں مل گئی ہے ۔ 1944ء میں گاندھی ،جناح مذاکرات کے موقع پر بھی انہوں نے دو قومی نظریہ کی وظاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیگر عناصر کے علا وہ ہماری زبان اور ادب بھی ہندوئوں سے مختلف ہوگا۔ 1946ء میں آل اندیا مسلم لیگ کو نسل کے اجلاس میں ایک مرتبہ سرفیروز خان نون انگریزی زبان میں تقریر کر نے لگے تو قائد اعظم : نے انہیں ٹوکتے ہوئے فیصلہ دیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔
مئی 1947ء میں آل انڈیا مسلم نیوز پیپر ایشن کے کنونشن سے دہلی میں خطاب کرتے ہوئے ماضی میں مسلم پریس کی کمزور صورت حال میں روشنی ڈالی اور کہا کہ اردو ہماری قومی زبان کا درجہ لینے جارہی ہے ۔ ایسی صورت میں ضرروت اس بات کی ہے کہ اردو صحافت کو زیادہ سے زیادہ تر قی دی جائے ۔ قیام پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی کااجلاس 22فر وری 1948ء کو ہوا۔ جسکی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی ۔23فر وری کو دستور سواز اسمبلی کے اراکین نے حلف اٹھایا اور اسی روز فیڈرل کورٹ ! سپریم کورٹ ! کے قیام کا اعلان ہوا۔ 25فر وری 1948ء کو دستور ساز اسمبلی نے اردو کوپاکستان کی قومی زبان قرار دیا ۔ 1948ء میں جب مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے بنگالی زبان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی واضع الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہی ہو گی۔
یہ بات ریکارڈ پر فرمایہ کہ بالآخر اس صوبے کے لوگوں کو ہی حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہوگی ۔ لیکن میں واضع طور پر آپ سب کو بتادینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو ۔اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ۔ جو کوئی آپکو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ پاکستان کادشمن ہے۔ مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قیام متحد نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی کام کرسکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کردیکھ لو ۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔ اس سے ثابت ہوتا کہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان میں اردو کو بحیثیت قومی زبان رائج کرنا چاہتے تھے۔
تحریک پاکستان کے دوران بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی ۔ انہوں نے اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے نفاذ پر ہمیشہ زور دیا ۔ کیونکہ قومیں اپنی زبان سے پہچانی جاتی ہیں ۔ زبان ختم ہو جائے تو قوم باقی نہیں رہتی ۔ لارڈ میکالے کا فارمولاتھا کہ اگر ہندوستان کے لوگوں پرقابو پاناہے تو ان سے انکی زبان چھین لو ۔ جب غیر کی زبان آتی ہے تو صرف زبان ہی نہیں آتی بلکہ زبان کے ساتھ اسکی تہذیب ، تمدن ، معیشت ، معاشرت اور اقدار سب کچھ ساتھ آتا ہے۔
دنیا میں جتنے بھی تر قی یافتہ اور تر قی کی جانب تیزی سے گامزن ممالک ہیں وہ اپنے ملک میں اپنی قومی زبان میں اپنی مملکت کا نظام چلا رہے ہیں ۔ مثلاً روس ،چائنہ ، جرمنی ، آسٹریلیا، ہونگ کانگ ، جاپان ، ملائیشیا ،انڈونیشیا ، امریکہ اور انگلینڈ سب نے اپنی قومی زبان میں ترقی کی اور اسی کی طرف گامز ہیں ۔ دنیا میں صرف انڈیا ،پاکستان اور سری لنکا ہی ایسے ممالک ہیں کہ جہاں اپنی زبان چھوڑ کر انگریزی پر انحصار کیا گیا ۔ لیکن اب کافی عرصہ سے ہندوستان کی گورنمنٹ نے محسوس کر لیا ہے اور وہ اپنی قومی زبان کی طرف لوٹ رہے ہیں ۔ ورنہ ان تینوں ممالک کی صورت حال آپ لوگوں کے سامنے ہے ۔ بنگلہ دیش ہم سے علیحدہ ہوا۔ اور علیحدہ ہوتے ہی اس نے بنگالی کو اپنی قومی زبان بنایا اور ہر سطح پر اسکو نفاذ کیا ۔ آج بنگلہ دیش ہر میدان میں تر قی کر رہا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ تحقیق آور تخلیق کی زبان ایک ہونی چاہیے۔