قائداعظم محمدعلی جناح، ذوالفقارعلی بھٹو، جرنل ضیا الحق پاکستان کی تاریخ میں عظیم لیڈر سمجھے جاتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کے کارناموں سے ہر چھوٹ ابڑا واقف ہے۔اُن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی سیاسی پارٹی کا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان رکھا جبکہ غر یبوں کی فلاح وبہبود کیلئے عملی طور پر بھی بے پناہ کام کئے۔جرنل ضیاالحق پہلے پاکستانی لیڈر تھے جنھوں نے ملک میں اسلامی اقدار کو فروغ دیا۔انہوں نے ملک بھر سے شراب اور فحش لٹریچر کا خاتمہ کیا، زکوةو عشر اور نماز کا نظام قائم کیا۔ لیکن ان سب کا انجام بہت برا ہوا۔قائداعظم محمد علی جناح کی موت مشکوک تھی، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سولی پر چڑھا دیا گیا جبکہ جرنل ضیا الحق کا جہاز آسمان میں ہی اُڑا دیا گیا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے کافی حدتک اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان تمام لیڈروں کی اپنی ٹیمیں ہی ان کی بربادی کی وجہ بنی۔
پاکستان میںبے شمار سیاسی فنکار موجود ہیںجن کا نعرہ”بغل میں چھری اور منہ سے رام رام”ہوتا ہے۔یہ اپنی تقریر وںسے تو لیڈروں کی حمایت کرتے ہیں مگر اصل میںان کا کام لیڈروں کی جڑوںکو کھوکھلا کرنا ہوتا ہے۔ مغل خاندانوں سے لیکر آج تک کوئی بھی لیڈر ان سیاسی فنکاروں سے جان نہیںچھڑا سکا۔کیونکہ یہ فن کار چاپلوسی بھی کرتے ہیںاوراپنے اثر و رسوخ وچکنی چپٹی باتوںکے ذریعے ہر لیڈر کو اپنے طلسماتی جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ یہ جاگیرداروں کا ٹولہ ہے جو ہر لیڈر کا ساتھ ایک نیا روپ دھار کر دیتا ہے پھر اس لیڈر کو عبرت کا نشان اور تاریخ کا حصہ بنا کر کسی نئے شکار کی تلاش میںنکل پڑتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح بھی اس ٹولے کی وجہ سے بہت پریشان تھے لیکن اُن کو اتنی مہلت ہی نہ مل سکی کہ وہ اس ٹولے سے جان چھڑا سکتے۔
اب چلتے ہے ذراعمران خان کی طرف میںان تین لیڈروں کے بعد عمران خان کوایک ایسا لیڈر سمجھتا تھا جواپنے انقلابی نظریے کی وجہ سے ملک کوایک نئے راستے پر لے کرجا سکتا تھا۔جو ایک نئی سوچ، ایک نئی ٹیم کے ساتھ پاکستان کوعزت دار ممالک کی فہرست میںکھڑاکرسکتاتھا ۔جوپارلیمنٹ کی سیٹوں پر مزدوردار طبقے کو بٹھا سکتا تھااور جاگیردارنہ نظام سے چھٹکار ادلا سکتا تھا۔ لیکن مجھے یہ بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ عمران خان کے پاس اب ایک نئی سوچ تو ہے مگر نئی ٹیم نہیںا وریہ نئی سوچ بھی ممکن ہے کہ آہستہ آہستہ دم توڑ دے۔ عمران خان نے اپنی ٹیم کے انتخاب میں بہت زیادہ غلطیاں کی ہیںاور بہت سے غلط لوگوں کواپنی ٹیم کا حصہ بنا لیا ہے
جس وجہ سے بہت سے اچھے لوگ عمران خان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ میں تحریک انصاف کے مختلف رہنمائوں اور کارکنوں کو اس وقت سے جان تاہوں جب تحریک انصاف کے پاس ایک بھی قومی وصوبائی سیٹ نہ تھی۔جس وقت تحریک انصاف کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ یہ بھی مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرح صرف ایک علاقے یعنی میانوالی اور اس کے گردونواح کی پارٹی بن کررہ جائے گی۔لیکن تحریک انصاف کے وہ کارکنان اور رہنما پھر بھی ہروقت پُراُمید رہتے تھے اور وہ تحریک انصاف کی کامیابی کے لئے دن رات محنت کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے
تحریک انصاف وہ پارٹی ہے جس سے پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کرکے غریب طبقے یعنی ریڑھی والے، چائے والے، تندور والے کو حکمران بنایا جاسکتا ہے۔ اوریہ اُنہی لوگوں کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف 30 اکتوبر 2011ء کو مینارِ پاکستان کے احاطے میں ایک کامیاب جلسہ منعقد کرنے میںسُر خرو ہوئی۔اس کامیاب جلسے کا فائدہ یہ ہواکہ تحریک انصاف نے حقیقی معنوں میں اپنی سیاسی حثییت منوالی لیکن اس سے ایک بہت بڑا نقصان بھی ہواوہ یہ کہ جاگیرداروں کاوہ ٹولہ جو مغلوں کے دور سے سرگرمِ عمل ہے وہ جوق درجوق اس جماعت میں داخل ہو گیا جس کے نتیجے میں بہت سے اچھے لوگ عمران خان کا ساتھ چھوڑتے گئے جن میں سے کچھ کو تو ماموں بنا کر منالیا گیا جبکہ زیادہ تر آج بھی ناراض ہی نظر آتے ہیں۔
Imran Khan
عمران خان ایک مستقل مزاج والا آدمی ہے۔اس کے اندر لیڈر شپ کی کوالٹی بھی پائی جاتی ہے۔ وہ سچ بولنے کی بھی حتی الامکان کوشش کرتا ہے۔ اس پر کرپشن کا بھی کوئی کیس نہیں ہے۔اسکے علاوہ وہ ایک ایساانسان ہے جو حالات جیسے بھی ہوںڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ لیکن عمران خان میں ایک کوالٹی کی کمی ہے اور وہ ہے دوست اور دشمن کی پہچان کرنا یا دوسرے لفظوں میں مخلص اور دھوکے باز لوگوں میں فرق کرنا۔یہ بات عمران خان کو بہت نقصان پہچائے گی۔آج وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان وزارت کیلئے لڑائی ہورہی ہے۔ مستقبل میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے درمیان وزارت کیلئے لڑائی ہوگی۔اس کے علاوہ اس کے اور بھی بہت سے بیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔
عمران خان کو جتنے بھی ووٹ پڑتے ہیںوہ اس کی اپنی شخصیت اور پارٹی کے بہتر منشور کی وجہ سے پڑتے ہیں سیٹوں کیلئے اسے کسی دوسرے آدمی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر جاگیرداروں کے بغیر یہ پارٹی 2011ء میںکامیاب جلسہ کرسکتی ہے تومستقبل میںبھی اسے ایسے لوگوںکے سہارے کی ضرورت نہیں تھی۔اسلئے عمران خان کو چاہئیے کہ وہ بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاگیرداروں کیلئے تحریک انصاف کے دروازے بند کر کے ریڑھی، چائے اور تندور والوں میں ٹکٹوںکی تقسیم کو اپنا اصل مقصد بنائے۔ یہ بیچارے اپنے حقوق کے لئے کبھی پپیلز پارٹی، کبھی ن لیگ کے جلسوں میں اور اب تحریک انصاف کے دھرنوں میں بہت ماریں کھارہے ہیں۔ اگر عمران خان ان میں سے کسی ایک کو بھی قومی اسمبلی کی 272 سیٹوں میں سے کسی ایک سیٹ پر نہ بٹھا سکا تو وہ اِن غریبوں کا مجرم ہو گااور یہ تبدیلی تبدیلی نہیں کہلائے گی۔