لیڈر یا گیڈر

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

پاکستان بننے کے بعد پہلی کابینہ کا اجلاس تھا جس میں قائد اعظم بھی موجود تھے اس وقت قائد اعظم کے اے ڈی سی گل حسن نے قائد اعظم سے پوچھا سر، اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی؟ قائد اعظم نے چونک کر سر اٹھایا اور فرمایا یہ لوگ گھروں سے چائے، کافی پی کر نہیں آئے ؟ اے ڈی سی گل حسن گھبرا گیا۔۔ جس کے بعد قائد نے فرمایا جس وزیر نے چائے، کافی پینی ہے وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر واپس گھر جا کر پیئے قوم کا پیسہ قوم کے لیے ہے وزیروں کے لیے نہیں مگر قائد اعظم کی وفات کے بعد سارا نظام ہی الٹ پلٹ ہوگیا۔

ہمارے آنے والے ہر حکمران نے قائد کے اصولوں کیخلاف کام کرتے ہوئے قوم کے پیسے سے خوب عیاشی کی قائد اعظم نے تو قومی دولت سے اس وقت کے وزیروں کو چائے کا کپ پلانے سے بھی انکار کر دیا تھا جبکہ آج ملک کا بچہ بچہ قرضے میں جکڑا ہوا ہے، ملک میں تعلیم، شعور، روزگار، بجلی، گیس اور قانون کی حکمرانی کہیں بھی نظر نہیں آرہی اور سب سے بڑھ کریہ کہ پاکستان کی تقریبا 70 فیصد سے زائد آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہوں وہاں کے حکمران رہی سہی ملکی دولت بھی لوٹنے میں مصروف ہوں تو پھر ایک عام پاکستانی کے حالات کب اور کیسے سدھریں گے اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر تیز رفتاری سے دوڑانے کے لیے کب کوئی آئے گا۔

ملک میں ہر طرح کی حکومتوں کے تجربے کر کے دیکھ لیے جمہوری حکومت کے منتخب عوامی نمائندوں پر کرپشن کے سنگین الزامات لگا کر مارشل لا بھی لگے اور پھر ان فوجی ڈکٹیٹروں کی بھی کتے جیسی کرکے رخصت کیا گیا مگر نہ ملک ترقی کرسکا اور نہ ملک کی عوام غربت کی چکی سے نکل سکی اور رہی سہی کسر ہماری افسر شاہی نے پوری کردی جنہوں نے اپنی سیٹوں کے لالچ میں ہر حکمران کی ہاں میں ہاں ملائی اور ملک میں طرز حکمرانی بدل دیا۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

اب جو بھی سیاستدان عوام کی منت سماجت اور انہیں سبز باغ دکھا کر یا کسی اور قوت کے اشارے پر الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے ایوان اقتدار تک پہنچتا ہے تو وہ الیکشن سے پہلے جتنا عوام کے قریب ہوتا تھا جیت کے بعد وہ اتنا ہی عوام سے دور ہوجاتا ہے اب آپ ہمارے وزیر اعظم جناب میاں نواز شریف کو ہی دیکھ لیں جب سے وزیر اعظم بنے ہیں تب سے ہی غیر ملکی دوروں پر ہیں اور اپنے ملک میں جب چند دن رہنے کے آتے ہیں تو اس وقت بھی ان سے ملنا کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا۔

پاکستان اور اسکی عوام کی یہی سب سے بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ جس کو بھی انہوں نے لیڈر بنایا وہ پھر گیڈر کی طرح عوام سے دور ہی بھاگا اپنے مرضی اور پسند کے افراد کو وزارتیں دی اور خود اپنے ہی ملک میں سینکڑوں محافظوں کے حصار میں غائب ہوگیا پورے ملک میں اس وقت عوام کی جو درگت بنی ہوئی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے مگر نہ جانے کیوں کسی طرف سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہورہی میں اپنے پڑھنے والوں کو بڑے شہروں جن میں اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ کی حالت زار بتا دیتا ہوں اسکے بعد باقی شہروں کا اندازہ آپ خود لگالیں کہ یہ ایسے شہر ہیں جہاں صدر، وزیر اعظم ،وزیر اعلی، وزرائ، چیف سیکریٹری، سیکریٹری، ہر محکمے کا ڈائریکٹر جنرل، آزاد میڈیا اور ہزاروں کی تعداد میں سیاسی سماجی ورکر ہر وقت متحرک رہتے ہیں مگر ان سب کے ہوتے ہوئے ان بڑے شہروں میں کرپشن، چور بازاری، لوٹ مار، بلیک میلنگ، بھتہ خوری اور فراڈ اتنا عام ہے کہ آپ کو کوئی ادارہ کوئی شخص ان چیزوں سے دور نظر نہیں آئے گا۔

ایک ٹائون کے کلرک، بلڈنگ انسپکٹر اور پولیس اسٹیشن سے لیکر ہر محکمے کے اعلی افسر تک بھتہ دینے اور بھتہ لینے میں مصروف ہیں جن میں صحافی، پولیس ملازم، سیاسی کارکن تک سبھی شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کو ہر بازار میں ناجائز تجاوزات کی بھر مار نظر آئے گی ہسپتالوں میں ادویات کی قلت نظر آئے گی۔

تھانہ کچہریوں میں ٹائوٹوں کا راج نظر آئے گا اور میرٹ کی سرعام دھجیاں بکھری نظر آئیں گی یہ ہیں ہمارے بڑے شہر چھوٹے شہروں کا اندازہ اب آپ خود لگالیں کیا علامہ اقبال نے اسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور قائد اعظم نے اسی پاکستان کے لیے اتنی محنت کی تھی ایک بار قومی جوش اور غیرت سے سوچئے گا زرور۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
فون نمبر : 03466444144