مولانا حسرت موہانی تحریک پاکستان کے نمایاں ترین قائدین میں سے ایک ہیں۔ وہ اپنا ایک مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ قائداعظم محمد علی جناح سے ملنے ان کے ہاں گیا۔ دربان نے روکا مگر میں اندر چلا گیا۔ اندرونی دروازہ ذرا سا کھولا تو میں نے قائداعظم کو اس وقت مصلے پر سجدے کی حالت میں پایا۔ انہوں نے سلام پھیر کر دعا شروع کی تو اس میں اسلامیان ہند کی آزادی کا درد تھا اور آنسووئوں سے ترتڑپ تھی۔
اس قائد کے بارے میں آج کئی لادین لوگ جنہیں عام طور پر سیکولر کہا جاتا ہے، یہ کہتے ہوئے نہیں چوکتے کہ قائداعظم کے نزدیک تو آزادی کے حصول کا مطلب محض انگریزوں سے چھٹکارا پانا تھا اور کچھ نہیں۔ اس کے بعد ہم نے جو ملک حاصل کیا ہے، اس میں اب اسلام نام کی کوئی چیز نہیں ہونی چاہئے، بلکہ یہاں جس کی جو مرضی ہو، اسے وہ کرنے کی آزادی ہونی چاہئے اور مذہبی لحاظ سے کسی قسم کا کوئی قانون یا پابندی عائد نہیں ہونی چاہئے۔ شاید یہ اس کا ہی تو شاخسانہ ہے کہ گزشتہ دنوں ہماری قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی ایک قرارداد جس میں شراب پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ،کو اسمبلی نے مسترد کر دیا حالانکہ ہم اپنے قائد کی زندگی کو دیکھیں تو اس حوالے سے ان کی رہنمائی صاف طور پر ہمارے سامنے ہے۔
پاکستان کے ممتاز جرنیل جنرل محمد اکبر خان (المعروف رنگروٹ) جنہیں 25 جون 1948ء سے 3 دن تک قائداعظم کے بیمار ہونے کے بعد ان کی خدمت و عیادت کا شرف بھی حاصل ہوا تھا کی کتاب ”میری آخری منزل” میں ایک ایسی گواہی درج ہے جو ان لادین یعنی سیکولرز کے لئے کسی موت سے کم نہیں۔ یہ گواہی انہی 3دنوں کے دوران کی ہے۔ جنرل اکبر نے اس مختصر سے عرصہ میں قائداعظم کے سامنے یہ معاملہ رکھا کہ ان کی فوج کا سربراہ انگریز ہے اور اس انگریز کی روایت پر آج بھی عمل کرتے ہوئے فوجی میسوں میںشراب کا عام چلن ہے۔ میری سفارش ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد ہمیں اس شراب پر پابندی عائد کر دینی چاہئے۔
جنرل اکبر کے یوں توجہ دلانے پر قائداعظم نے فوری طور پر بستر علالت پر پڑے ہونے کے باوجود اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور اسے کانفیڈریشن باکس لانے کو کہا۔ اے ڈی سی وہ باکس لے کر آیا تو آپ نے اپنی جیب سے چابی نکالی اور باکس کھول کر اس میں سے قرآن کریم کا نسخہ جو خصوصی طور پر مراکشی چمڑے سے جلد بند تھا، نکال کر اسے اس مقام سے کھولا جہاں انہوں نے پہلے سے نشانی رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے وہ مقام کھولتے ہی جنرل اکبر کو مخاطب کر کے فرمایا۔ جنرل! یہ دیکھو قرآن مجید میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ آپ حکم جاری کریں اور افسروں کو وارننگ دیں کہ شراب حرام اور منع ہے لہٰذا اب اس کا چلن بند کیا جائے۔ اس پر قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ محمد علی جناح کا حکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہو گا؟ پھر اسی وقت سٹینو کو بلایا گیا۔ قائداعظم نے خود ایک مسودہ تیار کیا جس میں انہوں نے قرآن کی اس آیت (جس میںشراب و منشیات کو حرام قرار دیا جا کیا ہے) کی جانب توجہ دلا کر حکم لکھوایا کہ اسلام میںشراب و منشیات حرام ہیں۔ جنرل اکبر لکھتے ہیں کہ میں نے اس مسودے کے مطابق شراب نوشی بند کروانے کا حکم جاری کروایا جس پر میری ریٹائرمنٹ تک عمل بھی ہوتا رہا۔ قائد کی شراب کے حوالے سے یہ رائے کوئی اس دن قائم نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے 27 جولائی 1944ء کو راولپنڈی میں منعقدہ ایک تقریب میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ پاکستان میں شراب پر یقینا پابندی ہو گی۔ یہ بات خورشید یوسفی نے اپنی کتاب” قائداعظم کے شب و روز” میں صفحہ 10 پر درج کی ہے۔
معروف تجزیہ نگار اور تاریخ نویس ڈاکٹرصفدر محمود لکھتے ہیں کہ قائداعظم کانفیڈریشن باکس ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے اور اس باکس میں قرآن مجید کا نسخہ بھی شامل تھا۔ جنرل اکبر کی عینی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم قرآن مجید پڑھتے اور ضروری مقامات پر نشانیاں بھی رکھتے تھے اگر انہیں موقع ملتا تو وہ یقینا اسلامی اصولوں کے نفاذ کے لئے اقدامات کرتے اور تصور پاکستان کو حقیقت کا جامہ پہناتے لیکن بدقسمتی سے موت کے بے رحم ہاتھوں نے قائداعظم کو ان کے وقت مقررہ پر دبوچ لیا اور تکمیل پاکستان کی جدوجہد ادھوری رہ گئی۔ پھر ملک پر جاگیردار، گدی نشین، موروثی سیاستدان، امراء اور جرنیل چھا گئے جنہوں نے پاکستان کو پاکستان نہ بننے دیا۔ کھلے ذہن اور صاف دل سے سوچئے کہ قائداعظم کی ہدایت پر پہلے یوم آزادی پر 15 اگست 1947ء کو مشرقی پاکستان میں مولانا ظفر عثمانی نے پاکستان کا پرچم لہرایا۔ مولانا ظفر عثمانی مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہر زادے تھے۔ کراچی میں پرچم کشائی کے لئے قائداعظم مولانا شبیر احمد عثمانی کو ساتھ لے گئے جن کا مولانا تھانوی سے گہرا تعلق تھا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ قائداعظم نے ایسا کیوں کیا؟ کیا پیغام دینا مقصود تھا؟ کیا وضاحت کی ضرورت ہے کہ قائداعظم کیا چاہتے تھے۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے۔ 14 اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض و جود میں آیا تھا۔ عین اس روز اپنے خطاب میں قائداعظم نے نبی کریم محمد رسول اللہۖ کو ہی اپنا رول ماڈل قرار دیا تھا۔ ان کے فروری 1948ء کے جاری کردہ اس پیغام جو انہوں نے امریکی عوام کے نام تھا، میں صاف اور واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور پاکستان کے دستور کی بنیادی اسلامی اصولوں پر ہی رکھی جائے گی۔
قیام پاکستان کی تحریک کے ایک معروف کارکن اور آج کے ممتاز دانشور کرنل (ر) اکرام اللہ بھی ہیں جو 23 مارچ 1940ء کے جلسے میں بھی بنفس نفیس شریک تھے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں ہمارے ساتھ یوم قرارداد پاکستان کے حوالے سے جو خصوصی گفتگو کی تھی، میں ہمیں بتایا کہ قائداعظم نے ان کی موجودگی میں قیام پاکستان سے پہلے 101 بار جبکہ قیام کے بعد 14 بار یہ کہا تھا کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہو گا۔
Kashmir
کرنل (ر) اکرام اللہ کی یہ روایت ایک ایسی سند ہے کہ جس سے انکار ممکن نہیں لیکن اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنے والوں کو کیا کہا جا سکتا ہے؟ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران قائداعظم اس قدر دوڑ دھوپ میں لگے رہے کہ انہیں اپنی صحت کا بھی خیال رکھنے کا موقع نہ ملا۔ وہ ہڈیوں کا چلتا پھرتا ڈھانچہ بن چکے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد ملک کو کشمیر کے مسئلہ نے گھیر لیا تھا۔ قائد نے بھارت سے کشمیر کو آزاد کروانے کے لئے فوج کے سربراہ جنرل گریسی کو فوج کشمیر میں داخل کرنے کا حکم دیا لیکن اس نے حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ قائد کے اعصاب پر اگلا بڑا حملہ تھا۔
اسی عرصہ میں بھارت سے ہر روز ہزاروں شہیدوں کی لاشیں پاکستان پہنچ رہیں تھیں۔ ہر طرف آگ و خون کے دریا ابل رہے تھے۔ سارے ملک پر بھارت سے آنے والے ایک کروڑ مسلمانوں کو سنبھالنے، انہیں ملک کا حصہ بنانے کے لئے ہر طرف اس قدر دوڑ دھوپ تھی کہ کسی اور مسئلہ کا ہوش ہی نہیں تھا۔ بھارت کے ہندوئوں اور سکھوں کے مظالم ہر روز بڑھتے ہی جا رہے تھے جنہوں نے قائد کے زخمی اعصاب کو گھن کی طرح چاٹنا شروع کر رکھا تھا۔ بھارت نے پاکستان کے حصے میں آنے والا نہ صرف 75 کروڑ کا خزانہ دبا لیا تھا بلکہ حصہ میں آنے والا ایمونیشن، اسلحہ اور صنعتیں وغیرہ بھی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی ان مسائل کی ایسی دلدل میں دھنس کر رہ گیا تھا کہ ملک کے آئین و قانون کی جانب توجہ دینے کا کسی کو ہوش ہی نہ تھا اور سب اسی فکر میں مگن تھے کہ کیسے ملک کے حالات کو کچھ سدھار کر قدم آگے بڑھایا جائے۔
ان حالات میں قائد کی صحت اس قدر گر گئی کہ انہیں ڈاکٹروں نے ساری مصروفیات ترک کر کے تمام تر الجھنوں اور پریشانیوں سے دور کس صحت افزا مقام پر جا کر کچھ عرصہ رہنے کا مشورہ دیا۔ یوں قائد کے لئے بلوچستان کے علاقے زیارت کا انتخاب ہوا۔ وہ وہاں چلے تو گئے لیکن پاکستان کے قومی معاملات اور مشکلات و مسائل کی فکر انہیں یہاں بھی ہر دم گھیرے رہی تاآنکہ وہ یہیں اپنے رب سے جا ملے۔
قائد نے جو پاکستان لیا تھا، اس کی بنیاد تو صرف اور صرف دو قومی نظریہ پر رکھی گئی تھی۔ انہوں نے یہی بات لارڈ مائونٹ بیٹن سے ببانگ دہل کی تھی کہ ”ہندو اور مسلمان ہر لحاظ سے دو الگ قومیں ہیں جو ایک ساتھ کبھی نہیں رہ سکتیں لہٰذا اسلامیان ہند کو الگ وطن دیا جائے”۔ ان کے یہ الفاظ کہ ”پاکستان اس دن ہی بن گیا تھا جب برصغیر کے پہلے ہندو نے اسلام قبول کر لیا تھا” اور ان کا یہ کہنا کہ ”ہم ایسی ریاست چاہتے ہیں جسے ہم اسلام کی عملی تجربہ گاہ میں بدل سکیں”۔ آج بھی ان کی یہ باتیں نمایاں طور پر پڑھی اور سنی جا سکتی ہیں جو ان لادینوں (سیکولرز) کے عزائم کے راستہ میں ایسا بھاری پتھر ہے جسے اٹھانا بھی ان کے بس کی بات نہیں رہی۔
تاریخ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر دنیا کو بے وقوف بنانے والوں کو قائد کی وہ باتیں ضرور پڑھنی چاہئیں جو ان کے چھپانے سے نہیں چھپ سکتیں۔ قائداعظم نے شیلانگ (آسام) کے مقام پر خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کیا تھا جس میں انہوں نے کھل کر کہا تھا کہ ”ہر مسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کر سکے” (بحوالہ: قائداعظم،تقاریر و بیانات جلد سوم) کیا یہ سیکولرز کبھی قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں…؟ ہمارا خیال ہے کہ ہرگز نہیں… ورنہ ان کے سارے اشکال تو خود ہی دور ہو جائیں کیونکہ قرآن اپنے پڑھنے والے کو کبھی اندھا نہیں چھوڑتا اور یہی قائد کا ذاتی فکر و تجربہ تھا۔ جسے وہ دوسروں تک بھی پہنچاتے تھے۔ انہیں قرآن سے کس قدر محبت تھی، اس کا اندازہ جناب منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر” کے حصہ اول سے بھی بخوبی ہوتا ہے جس میں جناب قائد کا ایک واقعہ درج ہے جو ایک ذاتی گواہی کی بنیاد پر عبدالرشید بٹلر کے انٹرویو میں موجود ہے۔ عبدالرشید جو قائد کے ساتھی محافظ بٹلر تھے، نے ذاتی مشاہدہ میں بتایا ہے کہ ایک شب قائد مطالعہ کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کبھی پانی اور مانگا اور کبھی چائے۔ میں رات بھر مشاہدہ کرتا رہا کہ قائد اسی عرصہ پر کبھی کھڑے ہو جاتے اور کبھی بیٹھ جاتے اور کبھی قرآن پر سر جھکا کر غور و فکر کرتے اور کبھی اسے غور غور سے پڑھتے اور پھر اس پر نظریں جھکا کر اور آنسو بہا بہا کر دعائیں کرنا شروع کر دیتے تھے۔
یہ تو چند گواہیاں ہیں، وگرنہ قائد کی زندگی تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جناب قائد نے اپنے ساتھیوں میں مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی جیسے عظیم مجاہد کو بھی شامل کر رکھا تھا۔ مولانا دائود غزنوی کو انہوں نے پنجاب میں قیام پاکستان کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے متعین کیا تو مولانا عبداللہ بہاولپوری کو سندھ میں اس مشن پر روانہ کیا۔
قائد کی ساری زندگی اسلام سے محبت اور اس کی بنیاد میں ملک بنانے اور اس بنیاد پر ملک کو بنانے سنوارنے کے خواب دیکھتے ہی گئی جو ان سیکولرز کے لئے کسی طمانچے سے کم نہیں۔ یہ سوال تو کبھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا کہ قائد اپنی موجودگی میں تحریک پاکستان کے ہر جلسے میں پاکستان کا مطلب کیا …لاالہ الا اللہ …کا ترانہ خود پڑھوایا اور اس کا خود اہتمام کروایا کرتے تھے۔ آخر اس کا مطلب کیا تھا۔