تحریر : سید عارف سعید بخاری بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت ساری قوم کے لئے خوشی اور مسرت کا دن ہے ،حسب روایت ہرسال سرکاری اورعوامی سطح پر ہم اپنے قائد کا یوم ولادت پورے جوش ور جذبے سے مناتے ہیں ،اُس روز قائد اعظم کی تعلیمات کی روشنی میں حکمرانوں کے پیغامات جاری ہوتے ہیں، قوم کو اپنے قائد کے افکار و تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی جاتی ہے ، سیمینار ، مذاکرے اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق تعلیمی اداروں میں تقریبات کا انعقاد بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔سیاسی قائدین ان تقریبات میں دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں ، قائد اعظم کے افکار پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرتے ہیں یوں قوم کو بھی پند و نصائح کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ،اور ہم میں سے ہر فرد یہ سمجھتا ہے کہ اُس نے قائد کے فرامین کو اُجاگر کرکے اپنا قومی و ملّی فریضہ ادا کر دیا اور بس ۔۔۔۔اس سے زیادہ ہم شاہد کسی اور عمل کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب صرف یہی ایک دن اور اسی طرح کے دیگر ایّام منانا ہی کافی سمجھتے ہیں ۔اور ہماری یہ سوچ اور فکر وقت کے ضیاع اور قوم کو حتیٰ کہ خود کو بے وقوف بنانے سے زیادہ کچھ نہیں ۔ بیشک ! فرنگی سامراج اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلا کر ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں پربہت بڑا احسان کیا ہے ورنہ آج بھی ہم فرنگیوں اور ہندوؤں کے تلوے چاٹ رہے ہوتے۔
قائد کا یوم ولادت ہمارے لئے اُن اصولوں اور اُن تعلیمات پر کاربند رہنے کے عہد کی تجدید کا دن ہے جو بابائے قوم نے ہمارے لئے متعین فرمائے اور جن کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں نے قائد مرحوم کی رہنمائی اور قیادت میں پاکستان جیسی عظیم اسلامی مملکت حاصل کی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک پاکستان کے دوران ایمان ،تنظیم اور یقین محکم کے رہنماء اصولوں نے ہی اس عظیم منزل تک پہنچنے میں ہماری رہنمائی کی اور آج 69برس گذرنے کے باوجود پاکستان اوراسلام دشمن قوتوں کی تمام تر سازشوں اور مخالفانہ کوششوں کے باوجود زندہ ء جاوید حقیقت کی طرح ایک آزاد ، جمہوری اور اسلامی مملکت کے طور پر دُنیا کے نقشے پر موجود ہے ۔وطن عزیز کو قائد کی تعلیمات و افکار کی روشنی میں ایک خوشحال و مستحکم ریاست بنانا ہر اُس شخص کا فرض ہے جو پاکستان میں رہتا ہے اورخلوص ِدل سے ایک سچے اور محب وطن شہری کی طرح پاکستان کی سلامتی پر ایمان رکھتا ہے۔
بابائے قوم کی وفات کے بعد پاکستان کو جن نازک ادوار سے گذرنا پڑا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ،اقتدار پسندوں نے اپنے اقتدار اور مفاد پرستوں نے اپنے مفاد کی خاطراسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ،سیاسی قائدین کی ہوس اقتدار نے اس ملک کو دولخت کیا، دوقومی نظریہ کی اصل روح کو مسخ کیا یہ تمام کارہائے نمایاں تاریخ کے آئینے میں نقش ہو چکے ہیں ۔ بابائے قوم کے نظریات کے نام پر اس ملک کو جس طرح دو ٹکڑے کیا گیا اور جس بے حیائی اور ڈھٹائی سے بعض لوگوں نے اپنی کرسیاں حاصل کرنے یا بحال کرنے کے لئے پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی شرمناک کوششیں کیں وہ بھی تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں آج کا یہ دن ہمارے لئے ان تمام کارگزاریوں اور کوتاہیوں کاجائزہ لینے کا دن بھی ہے جو ہم نے 69برسوں میں قائد اعظم کا نام لے کر انجام دئیے ۔ کیا قائد اعظم سچ مچ اسی ایمان ، اتحاد اور تنظیم پر یقین رکھتے تھے جس کا مظاہرہ ہم آج کئی برس گذرنے کے بعدبھی اپنے مفادات پر ایمان رکھ کرکر رہے ہیں۔
Pakistani Nation
آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا بابائے ملّت حقیقتاًقوم میں یہی نظم و ضبط پیدا کرنے کے خواہاں تھے جو ہم نے ذاتی اغراض کے حصول کے لئے روا رکھا ہوا ہے اور کیا بانی ء پاکستان کے نزدیک یہی یقین محکم پاکستان کو مضبوط تر اور مستحکم تر بنانے کی ضمانت تھا جس کو اپنا کر ہم پوری قوم اور ساری ملّت کا مذاق اڑاتے رہے ہیں ۔ نہیں بلکہ بابائے قوم کے اصولوں کی منشاء یقینا اس طرز عمل سے مختلف تھی اور نہ یہ طرزِ عمل قائد اعظم کے افکار و خیالات اور اصولوںسے ہم آہنگ ہے کہ جوہر آدمی ذاتی مفادات حاصل کرنے کیلئے روا رکھے ہوئے ہے۔ انسان کے لئے زندگی گذارنے کے بھی کچھ اصولوں ہوتے ہیں ۔لیکن بحیثیت قوم ہمارا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم اپنے مفاد کے لئے اخلاق و حمیت کی تما م حدیں پار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ہمیشہ ہی اقتدار سے محروم شخص جمہور کی باتیں کرتا رہاہے ، جمہوریت کا رونا روتارہا ہے لیکن وہی شخص اقتدار کی کرسی ملنے کے بات سب کچھ بھول جاتا ہے اپنے ہر غیر جمہوری عمل کو ”جمہوری ”کہہ کر قوم کو بے وقوف بناتا رہاہے۔
قوم اب تک آمریت اور جمہوریت کے بہت سے ادوار دیکھ چکی ہے ۔قوم کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمران بھی اپنے قائد کے افکار و نظریات کو یکسر فراموش کر چکے ہیں۔جس کی وجہ سے ہم قوموں کی برادری میں اپنا وہ مقام بھی کھو چکے ہیں جو ہماری پہچان تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ہم آج زندگی کے اُس دوہرائے پر کھڑے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں کہیںبھی قائد کے افکار کا پَر تو نظر نہیں آتا ، قول و فعل میں تضاد اور دیگراں را نصیحت کے مصداق ۔۔۔ہم اپنے گریباں میں جھانکنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے ۔ہمیں اپنے قائد سے کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ہم بے حسی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔
بانی پاکستان کا یوم ولادت دیگر امور سے زیادہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم قائداعظم کے افکار کو محض پند و نصائح تک محدود نہ رکھیں بلکہ خلوص دل سے آج اس بات کا عہد کریں کہ ہم جہاں اپنی زندگیوں کو قائد کی تعلیمات ایمان ، نظم و ضبط اور یقین محکم کے اصولوں کی روشنی میں ڈھالنے کی سعی کریں گے وہاں وطن عزیزکو اپنے قائد کے خوابوں کی تعبیر بنانے کیلئے اپنی اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے قومی ترقی کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے بتوں کو توڑ دیں ، اسی صورت میں ہی ہم دنیا میں ایک باوقار قوم کی طرح اپنی بقاء اور سلامتی کا تحفظ کر سکتے ہیں اور غیر اقوام کا دست نگر بننے سے بچ سکتے ہیں۔