تحریر : جنید رضا اگر آپ ذرا غور فرمائیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ قائداعظم پر سیکولر کا بہتان لگانے والے تین قسم کے لوگ ہیں ،(1)وہ لوگ جو دین سے بیگانہ ہیں ( 2) وہ جو دین سے بدظن ہیں (3) وہ جو دین سے برگشتہ ہیں، ان تمام گروہ کا قائد وہ پسندیدہ مؤرخ ہے جو الیکرونک میڈیا پر کہتا ہے کہ ہمیں قرآن و حدیث سے باتر ہوکر سوچنا چاہے ۔سوال یہ ہیکہ کیا کوئی مسلمان قرآن و حدیث سے بالا تر ہوکر سوچ سکتا ہے۔
ان کے یہ “بھیانک فرمودات” کو سن کر مجھے یوں لگا گویا وہ اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ ہو ان حضرات کا کہنا ہے کہ قائداعظم کی ذاتی زندگی پر اسلام کی چھاپ تک نظر نہیں آتی اس لئے وہ سیکولر نظام کے حامی تھے ظاہرہے کہ قائداعظم کوئی مولوی اور صوفی تو نہیں تھے لیکن وہ عقیدے کے حوالے سے پکے اور سچے مسلمان تھے ان کی سچائی ،حق گوئی اور دہانت کی گواہی ان کے شدید ترین مخالف بھی دیتے تھے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے والے تھے ،گورنر جنرل کا حلف اٹھانے کے بعد آپ نے 14اگست 1947کو اسمبلی میں جو تقریر کی آپ اسے توجہ کے قابل کیوں نہیں سمجھتے وہ اس لئے کہ اس میں قائداعظم نے نبی اکرم ۖ کو اپنا IDIOL رول ماڈل ،نمونہ اور اسوہ حسنہ قرار دیا تھا یہی وہ بات تھی جو ان آزاد خیال اور مذہب بیزار لوگوں کو پسند نہیں آئی تھی۔
11اگست کو قائداعظم نے فقط یہ کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہونگے اور یہ بات تو میثاق مدینہ کا حصہ ہے ،نیز انھوں نے کہا کہ تمام شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی نہ کسی کو مذہبی جبر کا نشانہ بنایا جایگا اور نہ کسی کو مذہب پر تھوپہ جا یگا ، قائداعظم کی ان باتوں میں سیکولرازم کہاں سے آگیا کیونکہ یہ اسلامی نظام کے بنیادی اصول ہے جب قائداعظم” ہماری بنیاد اسلام پر ہوگی ” کا تکرار کرتے رہے تو اس میں ایک شخصی آزادی کا تصور موجود ہیںجو جمہوریت کی ضمانت ہے جب وہ قانون کی حکمرانی ، انسانی مساوات ، سماجی و معاشی عدل وانصاف کی بات کرتے تھے تو ان دل شکستہ لوگوں کو آپ کی ان باتوں سے نا آشنائی حاصل ہوتی تھی ،کیونکہ بد قسمتی سے ہمارا مذہب فرقہ واریت اورانتہا پسندوں کے علمبرداروں اور مذہبی سوداگروں کی جو لا نگاہ بن گیا ہے۔
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم مسلمانان ہند و پاکستان سے اسلامی جموریہ پاکستان کی ریاست کا مینڈیٹ لیا تھا اور اسی منشور 1945-46کے انتخابات جیتے تھے اسلام ہی کے نام پر مسلمانوں نے ان گنت پرقربانیاں دی تھی اور عالمی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی تھی قائداعظم جیسا دیانتدار لیڈر اس مینڈیٹ سے کبھی بھی انحراف نہیں کرسکتا تھا٫وہ مؤرخین جن کا کہنا ہے کہ قائداعظم نے اسلام کا نعرہ لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے لگایا در اصل قائداعظم پر بہتان لگاتے ہیں اور اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے ؟ اگرقائداعظم ایسا نہیں چاہتے تھے تو پھر قیام پاکستان کے بعد اسلام کو پاکستان کے نظام کی بنیادکیوں قرار دیا۔
قیام پاکستان کے بعدزندگی کے آخری سال میں انہیں ایسی کون سی مجبوری تھی کہ انہوں ہے نفاذ شریعت کا جھنڈا بلند کیاہمارے سیکولر نظام کے علمبراد دانشورانہ شوشے چھورتے ہیں اور نفرت پھیلاتے ہیں یہ حضرات قراردار مقاصد کے مخالف ہیں ا ور کہتے ہیں اس سے مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے ،اس ملک کا حصول بے پناہ کاوشوں کے بعد ممکن ہوا جوقائداعظم اور ان کے ساتھ دیگر احباب جن میں نمایا قردار علمائے ہند نے ادا کیاتھا اور مصائب و بربریت کی بھڑکتی آگ میں شدت حرارت کوبرداشت کرکے اسلام و مسلمانان اسلام کی بقاء اور سربلندی کے لئے کام کیا تھا ۔انہوں نے علمائے ہندو دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر اپنی منشوری حاصل کی اور حصول پاکستان کی جنگ لڑی ،لیکن دین سے خوفزدہ طبقہ قائداعظم کے نام پر سیکولر پاکستان کا نعرہ اپنی خواہشات کے گھوڑے دوڑارہا ہے ور بابائے قوم پر بہتان باندھ رہا ہے اﷲ انہیں ہدایت عطا فرمائے (آمین) یہ وقت جس سے ہم گزر رہے ہیں۔
ہماری قومی ملی تاریخ کے نازک ترین اوقات ہیں اس وقت ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور ہمیں فیصلہ کرنا ہے اور ہمیں یہ فیصلہ کرناہوگاکہ ہم ان دوراستوں میں سے کس کی طرف بڑھیں ،اس موقع پر جو فیصلہ بحیثیت قوم ہم کرے گے وہ نہ صرف ہمارے مستقبل پر ٫بلکہ نہ معلوم کتنی مدّت تک ہماری آئیندہ نسلوں پر نظر انداز ہوتا رہیگا ،ہمارے سامنے ایک راستہ تویہ ہے کہ ہم ان اصولوں کی مدد سے اپنے نظام کی بنیاد قائم کرے جوہمیں اسلام بتاتا ہے اور ہماری ساری کی ساری زندگی،ہماری معاشرت ،معیشت ،ہمارا تمدن ،ہماری سیاست غرض سب کچھ ان اصولوں پر استوار ہوجو اسلام نے مقرر کر دیے ہیں ۔دوسرا راستہ ہمارے سامنے یہ ہے کہ ہم کسی مغربی قوم کے نظام زندگی کو قبول کر لیں خواہ وہ اشتراکیت ہو یالا دینی ،جمہوریت یا کوئی اور نظام زندگی ،.اور اگر خدا نخواستہ ہم نے اس کو اپنایا توہم اپنے دین سے انحراف کرنے والے ہونگے اور ہم زبان حال سے اپنے دین کی نفی کرنے والے ہونگے۔ آج 23مارچ کا دن ہمیں ہمارے تغییر کا پیغام دے رہا ہے کہ یہ ایک مرد جواں اگر تغیر کا علمدار بن جاے تو زمانہ پاکستان اجتماعی جھرمٹ کا سایہ عنایت کریں گے۔ تو شاعر بھی تڑپتے دل سے کہے گا۔
میں اکیلا ہی چلاتھا جانب منزل مگر لوگ آتے گے کارواں بنتا گیا
Junaid Raza
تحریر : جنید رضا متعلم ,جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی ای میل ایڈریس:junaid53156@gmail.com فون نمبر:0310-2238341