تحریر : محمد ریاض پرنس آج کا دن ہمیں محبت بھائی چارے اور وطن عزیز کے لئے خود کو وقف کرنے کا درس دیتا ہے آئیے ہم سب مل کر آج کے دن یہ عہد کریں کہ آپس کے گروہی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ پیارومحبت اور بھلائی کریں گے ۔اور اپنے پیارے پاکستان کی تعمیرو ترقی اور خوشحالی استحقام کے لئے کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے ۔قارئین بابائے قوم کے چند فرمان اور ان کی زندگی کے چند لمحات آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔ کیونکہ ان کے اند ر تعمیر پاکستان اور نوجوانوں کا مستقبل چھپا ہے ۔قائد کے اس باغیچے کو سر سبزہمیں ہی رکھنا ہے ۔ قائداعظم محمد علی جناح بابائے قوم کے فرمان کے مطابق !یہ وطن ہماری خوشیوں کا جہاں ہے اس کے لہلہاتے مناظر ہمارے ہیں جنہیں سرسبز ہمیں رکھنا ہے جو شجر قائد نے لگایا اس کی آبیاری ہمیں ہی کرنی ہے بابائے قوم کے یوم پیدائش کے موقع پر ہم عہد کرتے ہیں کہ ہمارے قدم بڑھتے رہیں گے ۔ماحول کی بہتری اور پاکستان کی ترقی کے لئے اور سدا بہار مستقبل کے لئے۔ قائد نے فرمایا! مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا۔ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔
مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔الحمد اللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا ۔(آل انڈیا مسلم فیڈریشن 15نومبر 1942ئ) ہمارے عظیم قائد نے خطبہ صدارت دستور سازاسمبلی 1947ء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی توجہ لوگوں بالخصوص غریب طبقے کی فلاح وبہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی۔
عید الضحیٰ کے موقع پر ہمارے قائد نے فرمایا۔ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے اتنی ہی زیادہ پاکیزہ ،خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے ۔جیسے سونا آگ میں تب کر کندن بن جاتا ہے ۔(پیغام عید الضحیٰ 24اکتوبر 1947ئ)قائد نے فرمایا۔اگر پاکستان کو دنیا میں صحیح طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہے جس کا حقدار اس کے رقبے اس کی آبادی اور اس کے وسائل نے اس کو بنا رکھا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اپنی مضمر صنعتی صلاحیتوں کو اپنی زرعی صلاحیتوں کے پہلو بہ پہلو نشوونما دے اور اپنی معاشیات کو صنعتی بنیاد مہیا کرے ۔قائد اعظم محمد علی جناح سیاسیات عالم کی ایسی ہی مثال ،غیر معمولی اور منفر د شخصیت ہیں ۔ عظمت کیا ہوتی ہے اور کیسے حاصل کی جاتی ہے ۔ اس بارے میں مفکرین کے اقوال تو بہت مل جاتے ہیں لیکن عظمت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ بے غرض اور بے لوث ہو کر اجتماعی فلاح وبہبو د کے ایسے کام کیے جائیں جن سے انسانوں کی بڑی تعداد کو فائدہ ہو۔
Quaid e Azam
قائد اعظم عظمت کے اصولوں پر پورا اترتے تھے ۔اس لئے وہ حقیقی معنوں میں ہمارے قائد ہیں ۔ان کی بے غرضی کا یہ عالم تھا کہ انہوں سخت ڈسپلن سب سے پہلے اپنے اوپر نافذ کیا ۔عیش وآرام اور آسانی کی زندگی انہوں نے کبھی نہیں گزاری تھی ۔وہ اپنی ذاتی کامیابی اور آسائش کے لئے کوئی کام نہیں کرتے تھے ۔جن ضوابط کی امید وہ دوسروں سے کرتے تھے سب سے پہلے وہ خود کرتے تھے ۔کام کام صرف کام کا اصول دوسروں کے لئے بعد میں تھا اپنے لئے سب سے پہلے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختصر سے عرصہ میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا ۔اور تخلیق پاکستان کا وہ کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ قاصر ہے ۔انہوں نے اس عظیم مقصد کے لئے ذاتی آرام کو ترجیح نہیں دی ۔اور اپنی صحت دائو پر لگا دی تھی۔قائد اعظم کی شخصیت سے اس کا اظہار ہو تا تھا ۔ان کے قول فعل میں تاثیر کی وجہ سے بھی ان کی عملی سچائی تھی ۔ان کی دیانتداری نے ان کی زندگی کو کرشماتی بنا دیا تھا۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ برصغیر کے مسلمان کے ان کے ایک اشارے پر اپنی جان دینے کو تیار ہو جاتے تھے۔وہ مسلمانوں کو متحد کرنے والی طاقت تھے ۔کہ جس ملک کے بانی کا کردار بے داغ اور کرپشن سے پاک ہو ۔جس نے سیاست و قیادت کا اعلیٰ ترین معیارطے کر دیا ہو ۔اس کے ملک میں سب سے بڑا بحران ہی باکردار قیادت کا پیدا ہو جائے ۔ہونا تو یہ چائیے تھاکہ بانی پاکستان کے کردار کو سیاست کا بنیادی مقصد بنایا جاتا ۔قائد اعظم سے سیاست کے گرسب سیاستدانوں کو سیکھنے چاہئے تھے ۔نیک نیتی اور اخلاص ہی وہ بنیادی ہتھیار ہیں جس ہر جنگ جیتی جا سکتی ہے ۔کردار کی بلندی نہ ہو تو کوئی بھی سیاستدان لیڈر نہیں بنا اور نہ ہی ہجوم کو ایک قوم بنا سکتا ہے۔
قائد اعظم محمد جناح کومسلمانان برصغیر کے مشکل ترین دور کا سامنا رہا ہے۔ان میں تقسیم در تقسیم بھی تھی اور ان کا حوصلہ بھی نچلی سطح پر تھا۔لیکن انہوں نے ایک د؛ گرفتہ ہجوم کو قوم میں تبدیل کر کے تاریخ کا رخ تبدیل کر دیا۔بعد میں آنے والے سیاستدانوں کے لئے ان کا یہ کردار مشعل راہ ہونا چائیے تھا ۔لیکن ہم نے قائد اعظم کو اعلیٰ ترین سطح پررول ماڈل نہیں بنایا۔قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے بنیادہ مسائل کا ادراک رکھتے تھے ۔قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کے دلی میں منعقدہ اجلاس میں انہوں نے کہا۔”مسلمان گروہوں اور فرقوں کی نہیں بلکہ اسلام اور قوم کی محبت پیدا کریں کیونکہ ان برائیوں نے مسلمانوں کو دوسو برس سے کمزور کر رکھا ہے ”۔ایک دھان پان سی مہذب وشائستہ شخصیت نے صاف ستھری سیاست کر کے انگریزوں اور کانگریسیوں جیسے سخت اورطاقتورمخالفین کے عزائم کوناکام بناکر 14اگست 1947ء کو آزاد مملکت پاکستان کی بنیاد رکھ دی ۔لیکن بہت افسوس کے ساتھ کہ ہم ان کے تدبر اورسیاسی بصیر ت کے ورثے کو آگے نہ بڑھا سکے۔