اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرتی طور پر آزاد پیدا کیا ہے تاہم وہ حدود و قیود کے اندر پابند کر دیا گیا ہے کہ کسی بھی انسان کو کائنات میں خیرو شر میں سے کسی بھی راستہ کو اختیار کرنے کا حق عنایت ہوا تاہم کوئی سا بھی راستہ چن لینے کے بعد اس کے ثمر میں انعام یا عقاب بھی طے شدہ امر ہے۔یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام کا سلسلہ شروع کیا گیا تاکہ انسان کو صراط مستقیم پر استوار رہ سکے اسی سلسلہ کے آخری نبی حضرت محمدۖ کو مبعوث کیا گیا تو آپۖ کے صدقہ سے انسانیت کو ظلمت و تاریکی اور جہالت و غلامی سے دائمی نجات ملی ۔یہاں تک کہ کس کو بھی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ بغیر کسی جرم یا سرکشی کے سزا دے یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرو بن العاص کے بیٹے کی جانب سے ایک آدمی پر تشدد کی شکایت کا خلیفہ عادل سیدنا عمر فاروق نے حکم دیا کہ وہ گورنر وقت کے بیٹے سے بدلہ لے اور فرمایا کہ لوگوں کو ان کی مائوں نے آزاد جنم دیا ہے تم نے کب سے انہیں غلام بنا لیا۔مسلمانوں نے فطرت کے مطابق زندگی کے جمیع مراحل میں آزادی کو حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ہمہ تن کوشش کی۔اسی سبب مسلمانوں نے جو ایک ہزار سال تک حکومت کی اس میں امیر و غریب کی تفریق کا خاتمہ کیا اور رعایا کے سبھی طبقات کو برابر عزت و مقام اور حقوق فراہم کیے۔
خطہ ارضی پر جب مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو برابر مسلمانوں نے اپنا قومی تشخص اور امتیاز و وقار کو بحال رکھا ۔ کسی بھی صورت مسلمانوں نے اپنی تعلیمی و ثقافتی اور قومی زبان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ مسلمانوں کی اول زبان تو عربی ہے ،خطہ ارضی میں وسعت کے ساتھ ہی فارسی زبان کو بھی مسلمانوں کی زبان ہونے کا خلعت ملا اور برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت کے دوران بہت سے مسلم ممالک کی اقوام کی یکجہتی و اتحاد کی وجہ سے اردو زبان نے جنم لیا ۔برصغیر پر انگریز نے جب شب خون مارا تو اس نے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کا جنازہ نکالنے کے لیے ضروری سمجھا کہ مسلمانوں کے مابین وحدت و اتحاد کی علامت تعلیم و تعلم کی یکسانیت اور زبان کی ہم آہنگی ہے۔لہذا انگریز نے اپنی تہذیب و ثقافت مسلط کرنے کے لیے مسلمانوں کے نظام تعلیم کا چہر جہاں پر مسخ کیا وہیں پر اپنی زبان بھی برصغیر میں رائج و نافذ کردی۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ اور تردد نہیں کہ زبان ہی واحد ذریعہ ہے کہ اس کے ذریعے سے اپنے افکار و نظریات کسی قوم پر مسلط کیے جاسکتے ہیں اور پھر زبان ہی ریاست و قوم کا اصل چہرہ ہوتی ہے۔
مسلمانان برصغیر نے انگریز کی غلامی کو کسی طرح قبول نہیں کیا اور بالخصوص جب انگریز نے ہندوئوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور ان کو ریاست میں مسلمان دشمنی پر ابھارنے کے لیے ملازمت و اعزازات سے نوازنے کا سلسلہ جاری رکھا تو ایسے میں سرسید احمد خان نے 1857ء کی جنگ آزادی کے اثرات مضر کو زائل کرنے کے لیے مدرسة الاسلام سکول قائم کیا اور بعد میں محمڈن کالج اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوا۔سرسید احمد خان صاحب بصیرت انسان تھے کہ انہوں نے انگریز کی نفرت کو جہاں زائل کرنے کی کوشش کی وہیں پر اول ہندومسلم اتحاد کی بات بھی کی مگر جب ہندوئوں کی جانب سے اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دیکر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا تو سرسید نے فیصلہ کرلیا کہ مسلمان اور ہندو اس ریاست میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تو انہوں نے مسلمانوں کے لیے الگ خطہ ارضی کی تمنا کی ۔اسی امر کو علی گڑھ مسلم کالج کے سرخیلوں نے ہندوستان سے انگریز کے انخلاء اور مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جدوجہد آزادی چلانے کا اعلان کیا۔
مسلم لیگ کی جدوجہد کو جلا بخشنے والی قیادت کو تلاش کرنے کے لیے مفکر پاکستان علامہ اقبال کی نظر انتخاب قائد اعظم محمد علی جناح پر ٹھہری ۔قائد اعظم محمد علی جناح 25دسمبر1876ء میں کراچی میں گجراتی خاندان میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم سندھی و انگریزی میں حاصل کرکے برطانیہ وکالت کی تعلیم انگریزی میں جاکر مکمل کی۔قائد اعظم محمد علی جناح کو جب علامہ نے بلایا تو ان کو یہ یقین تھا کہ مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی سرتوڑ کوشش کرسکتے ہیں۔آزادی کی تحریک میں لاکھوں مسلمانوں نے جانی و مالی اوع عزت و آبروکی قربانیاں پیش کی ہیں۔قائد اعظم محمدعلی جناح نے جب مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تو مسلسل کوشش کی کہ وہ انگریز کو برصغیر سے نکلنے پر ناصرف مجبور کریں بلکہ انگریز سے مطالبہ کیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں ان کی تہذیب و ثقافت اور زبان الگ الگ ہے۔
لہذا ضروری ہے کہ مسلمانوں کو آزادانہ طورپر اپنی مذہبی رسو م و رواج اور عبادات کو بآسانی تکمیل دے سکیں۔قائد اعظم کی خدمات کی تفصیل تو بہت زیادہ ہیںجس سے ان کی محبت ایمانی اور اسلام دوستی جھلکتی ہے کہ قائداعظم ہی نے گستاخ رسول راجپال کو جہنم واصل کرنے والے غازی علم الدین کا مقدمہ بھی بڑی جانفشانی لڑا۔تاہم اللہ تعالیٰ کے حضور غازی علم الدین غازی نہیں بلکہ شہید بن کر اعلیٰ مقام حاصل کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے تو انہیں پھانسی کی سزا دیدی گئی ۔مگر قائد اعظم نے مقدمہ بڑی تندہی و توجہ سے لڑا۔قائد اعظم کی ملی و اسلامی خدمات کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے قیام کا سہرا بھی انہیں کیے سرسجایا ۔حالانکہ اس وقت مسلمانوں کے پاس سیاسی و مذہبی میادین میں ایک سے ایک بڑھ کر قائد و رہبر موجود تھا لیکن کامیابی و کامرانی کی نوید بذریعہ قائد اعظم پوری ہوئی ۔
قائد اعظم نے قیام پاکستان سے پیشتر ہی واضح کردیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی اور مثالی ریاست ہوگی ۔ قائد اعظم پاکستان کو دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے لیے بطورنمونہ و مثال بنانا چاہتے تھے کہ اس کی تقلید سبھی ممالک کرسکیں۔اس کے ساتھ ہی قائد اعظم نے مشرقی پاکستان کے مرکز ڈھاکہ میں واضح اور واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا ملک پاکستان کی سبھی قوموں کے درمیان رابطے کی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی ۔ کیونکہ اردو زبان سندھی، پنجابی، بلوچی ،پشتو اور بنگالی سبھی لوگوں کے درمیان ایک پل کا کردار صرف اردو ہی اداکرسکتی ہے۔ قائد اعظم کی اسی بے باک شخصیت کا سرمایہ افتخار تھا کہ جلسوں میں موجود کسانوں سے جب معلوم کیا جاتاکہ آپ کو معلوم قائد اعظم کیا کہہ رہے ہیں تو وہ بغیر غورو خوض کہ یہ کہہ دینے پر مجبور تھے کہ قائد اعظم کیا کہہ رہے ہیں اس کا علم نہیں مگر جو بھی کہہ رہے ہیں وہ حق و سچ ہی ہے۔قائد اعظم نے قیام پاکستان کے بعد بھی اردو زبان کو سرکاری زبان قراردیا تاہم بنگلہ دیش کے باسیوں کی بے بصیرتی کی وجہ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور قائد اعظم کو آزادی کے بعد فرصت ہی نہ ملی کہ وہ ملک کو اسلامی و نظریاتی منہج پر استوار کرنے اور اردو زبان کو قومی زبان بنوانے کے لیے عملی اقدامات کرپاتے کہ اول بیماری نے حملہ کیا اور یوم بعدیوم ان کی صحت اس قدر بگڑی کہ وہ رفیق اعلیٰ منتقل ہو گئے۔
پاکستان کی آئینی قیادت برابر کوشش کرتی رہی کہ ملک کی زبان اردو کو قراردیا جائے اور اس کو بتدریج نافذ کرنے کے لیے راست اقدامات کریں ۔نتیجتاً 1956ئ،1962ء اور 1973ء کے آئین میں بالترتیب دس اور پندرہ سالوں کے درمیان ملک میں تعلیمی و انتظامی طورپر اردو زبان کو ناصرف نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا بلکہ اس کے لیے جنرل ضیاء الحق نے اپنے دورحکومت وفاقی تعلیم بورڈ میں نظام تعلیم کو اردو میں منتقل کرنے کا حکم دیا اور اس وقت کے چئیر مین پروفیسر نیاز عرفان نے اس حوالے سے ابتدائی کام مکمل کرالیا تھا لیکن پھر اغیار کی سازش کامیاب ہوگئی اور جنرل ضیاء الحق کو طیارہ حادثہ میں شہید کردیا گیا۔ملک کا بالحاظ زمین قیام تو عمل میں آگیا اور انگریز سے زمین تو حاصل کرلی مگر نظریاتی اور فکری طورپر غلام طبقہ سرمایہ دار وںاور جاگیرداروں نے ملک میں اسلامی تعلیمات اور قیام پاکستان کے تصور ات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں گاہے بگاہے روکاوٹیں حائل کرتے رہے بالکل اسی طرح ملک میں اردو زبان کو نافذ العمل ہونے دینے میں اس سرمایہ دار اور جاگیر دار و بیوروکریٹ ذہنی انگریزکے غلام نے سدود پیدا کی ہیں۔اردو زبان کے نفاذ کی مخالفت کرنے والوں کا خیال و تصور یہ ہے کہ ملک میں اگر اردو زبان نافذ ہوگی تو تعمیر و ترقی سائنسی و ٹیکنالوجی کی میدان میں ناممکن ہوجائے گی جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ ماضی کی تمام متطور قوموں کا باریک بینی سے جائزہ لینے تو ہر ایک نے دوسری تہذیب سے استفادہ کیا ہے اور علوم کے تراجم اپنی زبان میں کرکے ہی ان میں نمایاں طورپر کامیابی و سبقت حاصل کی جیسے یونانی و رومی اور ایرانی و ہندی تہذیب ہو یا پھر اسلامی تہذیب ان سب نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا ہے۔
مسلم علماء نے اس وقت تعلیم و تعلم اور فنون کے میدان میں جو نمایاں کامیابی سمیٹی اس کو دیکھ کر مغرب بھی ششدر و حیران تھا اسی بناپر مسلمانوں کی جامعات نے یورپ کے لوگوں نے سائنسی و ٹیکنالوجی کی تعلیم سیکھی۔مسلم سائنسدانوں میں فارابی و کندی ،ابن رشد ،ابن سینا، ابن الھیثم اور البیرونی سمیت سیکڑوں علماء نے دنیا کو جدید ترین علوم سے روشناس کرایا تو آج جب یہی علوم انگریز چوری کرکے اپنی طرف منسوب کرچکاہے تو کیوں بعید سمجھتے ہیں کہ اب اردو زبان میں یہ تمام علوم کیوں کر منتقل نہیں ہوسکتے اور ضرور بالضروراردو زبان میں جدید علوم کے تراجم کرکے ان میں مزید جدت و حدت پیدا کی جاسکتی ہے۔
محترم کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی کوششوں سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ایس جواد خواجہ نے واضح طور پر حکومت کو دوٹوک حکم دیا کہ تین ماہ کے اندر ملک میں اردو زبان کو دفتری و قانونی زبان بنایا جائے اور وفاقی سطح پر مسابقتی امتحان(سی ایس ایس )کو بھی اردو زبان میں لینے کا حکم جاری کیا۔ اگر چہ انفرادی طور پر متعدد اداروں نے کوشش کی کہ ملک میں اردو زبان کو عملاً نافذ کرنے کے لیے اپنا ذمہ دارانہ کردار اداکریں ۔ جس کے نتیجہ میں وفاقی زرعی تحقیقاتی کونسل اور گجرات یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی کوششیں قابل فخر ہیں کہ انہوں نے پنجاب کے قوانین کو اردو میں منتقل کیا ہے اور اسی طرح زرعی تحقیقاتی کونسل میں محمد اسلم الوری اور عطاء الرحمن چوہان کی کوششوں سے دفتری زبان کو اردو میں رائج کرنے کے لیے ترجمہ کا اہتمام بھی کیا گیا۔اردو زبان کو نافذ کرنے میںایک سب سے بڑی رکاوٹ حکومت میں آنے والی شخصیات بھی ہیں کہ ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے تمام تر امور اردو کی بجائے انگریزی زبان میں سرانجام دیے جائیں ۔اسی بناپر سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ کے حکم پر سٹے آرڈر حاصل کرکے نفاذ اردو کے راستے میںرکاوٹ حائل کردی۔اردو زبان سے نفرت صرف انگریزی کی کاسہ لیسی کے لیے کی جاتی ہے اور اغیار سے مالی امداد حاصل کرنے کے لیے یہ سب مذموم کوشش کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی بڑی وجہ رکاوٹ حائل کرنے کی یہ بھی ہے کہ حکمران طبقہ یہ نہیں چاہتا کہ ملک کی غالب اکثریت اسلامی اور ملی نظریات پر عمل پیرا ہوسکے کیونکہ اس سب کی وجہ سے ان کے جرائم سے پردہ اٹھ جائے گا۔
اردوزبان کے نفاذ کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا جہاں پر حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔وہیں پر بحیثیت مسلم اور محب وطن کے ہم پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم بھی نفاذ اردو کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے اپنے تئیں اقدامات کریں ۔اور سلسلہ میں قائدانہ کردار تو حکومت نے ہی اٹھانا ہے کہ موجود حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیر اعظم عمران خان اگر ملک میں حقیقی تبدیلی لانے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں بغیر کسی تاخیر اور لیت و لعل کے ایک حکم نامہ جاری کرنا ہوگا کہ ملک کی دفتری و انتظامی اور تعلیمی و قانونی زبان اردو ہوگی ۔تو کوئی بعید نہیںکہ ملک کے سبھی طبقے اس کو برضاو رغبت قبول کرلیں ۔اگر حکومت وقت پہلو تہی سے کام لیتی ہے تو ہمیں بحیثیت والد و استاد اور معاشرے کے فرد کے خود اپنی ذات اور اپنے متعلقین کو اردو زبان کو اپنے روزمرہ کے معاملات میں استعمال و اختیار کرنے کی ترغیب و دعوت دیں بلکہ اپنے پیغام اور اپنی بات پہنچانے کے لیے اردو زبان کو ہی استعمال کرنا شروع کردیں اس کے ساتھ ملک میں اردو کو اس کا جائز مقام و حق دلوانے کے لیے اجتماعی جدوجہد کا آغاز کریں اور اس سلسلہ میں تحریک نفاذ اردو پاکستان میدان عمل میں موجود ہے اور وہ دامے ،درمے ، قدمے،سخنے ہمہ تن کوشاں ہے کہ جلد سے جلد ملک میں اردو زبان کو نافذ کرایا جاسکے اس کے لیے تحریک نفاذ اردو قانونی و سیاسی اور تحریکی ہرمحاذ پر کام کرنے کے لیے تیاری میں مصروف عمل ہے ۔ تمام اہلیان وطن سے التجا ہے کہ اردو زبان ہمارے لیے ناصرف بانی پاکستان کی تعلیمات اور دستور پاکستان اور عدالتی فیصلہ کی روشنی میں اردو کا نفاذ کی خواہش و تمنا رکھیں بلکہ اسلامی تعلیمات کا گراں قدر ذخیرہ بھی اردو زبان میں موجود ہے جس سے استفادہ کرکے ہی ہم دائمی و ابدی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔یوم قائد پر بانی پاکستان محمد علی جناح کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ ملک میں بغیر کسی تاخیر کے قائد کی امنگوں کے عین مطابق اردو کونافذ کرنے کا فی الفور اعلان کیا جائے۔
Atiq ur Rehman
تحریر : عتیق الرحمن (اسلام آباد) مرکزی ناظم اطلاعات و نشریات : تحریک نفاذ اردو پاکستان 0313-5265617 atiqurrehman001@gmail.com