کسی بھی ملک و قوم کی اساس و بنیاد اس کا قومی تشخص ہوتاہے اور اس تشخص کو قائم و دائم رکھنے میں اس ملک و قوم کی نظریاتی و فکری پختگی و میلان کے ساتھ اس کے موجد و مئوسس اور اس کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ اہم ترین شے اس کی زبان ہوتی ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے وقت ہی اردو کو قومی اور سرکاری زبان قرار دیا تھا۔۔24دسمبر 2018 کو اسلام آباد میں تحریک نفاذ اردو پاکستان اور آفاق فورم کے اشتراک سے یوم قائد کے موقع پر ایک مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان ”قائد اعظم اور قومی زبان”تھا۔نظامت کے فرائض منتظم آفاق فورم اسلام آباد نمیر حسن مدنی انجام دئیے۔مذاکرے کا آغاز تحریک نفاذ اردو پاکستان کے ناظم اطلاعات عتیق الرحمن کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ بعد ازاں نعت رسولۖ کی سعادت احمد محمود زمان نے حاصل کی۔ افتتاحی کلمات تحریک نفاذ اردو پاکستان کے صدر عطا الرحمن چوہان پیش کرتے ہوئے کہا کہ تحریک نفاذ اردو 2015 سے ملک میں نفاذ اردو کی جدوجہد کررہی ہے۔اس سلسلہ میں بہت سے مضمون نویسوں اور قلم کاروں کو مجتمع کیا گیا اور وزیر اعظم پاکستان کے نام نفاذ اردو کے لیے خطوط بھجوانے کی ملک گیر مہم بھی مکمل کی گئی ۔ سماجی ویب سائٹس کے ذریعہ سے تحریک نفاذ اردو کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کا انتظام کیا جاتارہا ہے۔
تحریک نفاذ اردو کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ وزیرخارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے جنرل اجلاس میں اردوزبان میں خطاب کیا۔دائرہ علم و ادب کے صدر اور رفاہ یونیورسٹی کے استاد احمد حاطب صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی زبان سے استفادہ حاصل کرنا اور فنی تعلیم میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرنا الگ بات ہے اور اس میں کوئی عیب و برائی نہیں کہ دنیا کی کسی بھی زبان سے انسان ممکنہ فائدہ حاصل کرے۔تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ تقلید و مرعوبیت کی وجہ سے کسی غیر کی زبان کو اپنے اوپر مسلط کرلینا کہ اس کے بجز دنیا میں گزارا نہیں یہ بالکل درست نہیں ۔اجنبی زبان انگریزی ہو یا کوئی اور زبان اس کو ملک میں ذریعہ تعلیم اور دفتری و قانونی زبان بناناکسی صورت قابل قبول نہیں کیونکہ دنیا بھر کے مقتدرمفکرین کا اتفاق ہے کہ بچہ اسی زبان میں سیکھتا ہے جس میں وہ خواب دیکھتاہے اور بچہ کی اصل زبان مادری زبان ہے اور پھر دوسرے درجہ میں ملک کی قومی زبان سے آگہی و شناسائی حاصل کرنے اس پر لازم و ضروری ہے۔انہوں نے کہا یہ بات بالکل غلط ہے کہ اردو زبان نافذ نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اس کو ذریعہ تعلیم بناسکتے ہیں جبکہ ہم نے دیکھا ہے کہ مردہ ترین زبان عبرانی کو 18ویں صدی میں بڑی جدوجہد و صعوبت کے بعد یہودیوں نے ناصرف زندہ کیا بلکہ اس کو اپنی قومی زبان قراردیکر اسرائیل میں نافذ العمل کردیا ہے ۔
دوسری جانب اردو زبان میں انسانی تاریخ کا علمی و فنی ورثہ بڑی تعداد میں موجود ہے اور اردو وسط ایشیا کی سب سے بڑی زبان ہے تو اس کو نافذ کرنے میں دشواری و رکاوٹ مقتدر طبقوں کی مایوسی و ناامیدی کے ساتھ مغرب کی اندھی تقلید کرنا ہے۔موجودہ حالات میں اگر ایمان داری سے دیکھا جائے تو واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ سائنسی و ٹیکنالوجی کی ہمہ جہتی اصطلاحات کے تراجم اردو زبان میں ہوچکے ہیں اور مرور زمانہ کے ساتھ ترمیم و اضافہ کی ضرورت یقینا موجود ہے لیکن اردو زبان کو ترقی کے راستے میں رکاوٹ قراردینا بے بنیاد بات ہے۔تحریک نفاذ اردو کے سرپرست اعلی محمد اسلم الوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بنیاد1947میں نہیں بلکہ اسی دن پڑگئی تھی جب مسلمان ہندوستان میں پہنچے تھے ۔ اجودھن کو پاکپتن مسلمانوں نے بنایا ۔
پاکستان میں لسانیت و علاقائیت کا کوئی سکہ نہیں چلتا بانی پاکستان قائد اعظم نے واضح طورپر ملک کے خدودخال سیاسی و سماجی اور لسانی بیان کردیئے تھے۔ ا سلامی تعلیمات کا گراں قدر ذخیرہ اردو زبان میں موجود ہے جس سے استفادہ کرنا موجودہ دور میں مسلمان نوجوانوں کے لیے از حد ضروری ہوچکا ہے۔ ستر سال گزر چکے ہیں انگریز کی تقلید کرتے ہوئے تو اب تک ملک کے حالات درست نہیں ہوسکے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام اور ملک کے مسائل سمجھنے کے لیے جو زبان ضروری ہے اس سے بیوروکریسی مجتنب ہوچکی ہے۔ اردو کے نفاذ کے لیے بڑی تگ و دو کی ضرور ت نہیں کہ اس کو ناممکن تصور کرلیا جائے بلکہ ہم میں سے ہر فرد اپنے گردو پیش میں اردوزبان کو فروغ دینا شروع کردے تو ملک کے حکمران اس کو نافذ کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یونین کونسل ،تحصیل ، ضلع ،صوبہ اور ملکی سطح پر تمام ترتشہیری و پیغاماتی اعلانات کو اردو میں درج کرانے کی مہم شروع کی جائے اور اپنی دکان و فیکٹری و صنعت کا تعارف و نام بھی اردو میں رکھ لیا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ پلک جھپکنے میں اردو کے نفاذ کی راہ ہموار ہوجائے۔ سی ایس ایس (مقابلہ جاتی امتحان)اردو زبان میں لیا جائے اور ملک میں تمام دفتری و تعلیم اور قانونی نظام اردو زبان میں سرانجام دیئے جانے چاہئیں اس کے لیے سماجی ویب سائیٹ پر اور اپنے قرب و جوار کے لوگوں سے ملک کر بات کی جائے کہ اتنی مئوثر تحریک کا آغاز ہوجائے کہ حکومت ملک میں اردو زبان کو نافذ کرنے کا اعلان کردے۔
اردو زبان کے نفاذ کے سلسلہ میں جو اشکالات کیے جاتے ہیں ان کا رد بہت آسان ہے کہ دنیا میں جتنے بھی جدید علوم موجود ہیں ان کی تعلیم و تدریس اور اصطلاحات سے معرفت یقینی بنانے کے لیے مقتدرہ قومی زبان(ادارہ فروغ قومی زبان)،جامعہ گجرات اور پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے دارالتراجم قائم کیے ہوئے ہیں بہت سے علوم و فنون کے تراجم ہوچکے ہیں اور اب بھی یہ کوشش جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی تو ایسے میں قومی زبان کو نافذ کرنا بہرصورت ممکن ہے۔ تاہم یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ انگریزی زبان سے نفرت و غلظت کا اظہار کرنا کسی صورت مستحسن نہیں کیونکہ دنیا میں اس زبان کا چرچا ہے لہذا اس سے شناسائی و آگہی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ترقی یافتہ قوموں کا شعار رہاہے کہ وہ ترجموں کے ذریعہ سے دیگر اقوام وملل سے استفادہ کرتے ہیں جیسے یونیوں سے مسلمانوں نے اور مسلمانوں سے انگریزوں نے استفادہ کیا اور آج پھر مسلمان انگریزی علوم و فنون کے تراجم کرکے دنیا کے علوم میں ترمیم و اضافہ کرکے ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سرکاری اداروں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کو جاری کیے جانے والے وظیفہ کو مشروط کردیا جائے کہ وہ اپنے مقالہ کا خلاصہ اردو زبان میں تحریر کردیں تاکہ اس سے عام الناس بآسانی استفادہ کرسکیں اس طرح جہاں پر عوام پر علم و معرفت کا دریچہ کھل جائے گا وہیں پر تراجم کا سلسلہ بھی ترقی اور فروغ پاتارہے گا۔معروف صحافی و ریذیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت جاوید صدیق نے اپنے خطاب میں کہا کہ قیام پاکستان کے متصل بعد سے ہی ایک المیہ کھل کر ظاہر ہواہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے تصورات و افکار اور ان کی جانب سے ریاست پاکستان کے لیے وضع کردہ خدو خال اور خاکے سے موئے انحراف برتنے کا کام شروع ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان بدعنوانی،بدامنی اور بے چینی و اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے۔قائد اعظم نے بدعنوانی ، سول سروس اور قومی زبان کے حوالے سے جو ارشاد فرمایا تھا اس کو ملک کے طاقتور طبقے نے آج تک قبول نہیں کیا ہے۔ المیہ ہے کہ موجودہ دورمیں عدالت عظمی نے ملک میں نفاذ اردو کا حکم تو جاری کیا ہے مگر خود عدالتی فیصلہ جات اور مقدموں میں جرح و تعدیدل آج بھی انگریزی میں ہورہی ہے جس پر چیف جسٹس کو نوٹس لینا چاہیے۔
اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اگر سی ایس ایس کا امتحان اردو میں لیا جائے تو ملک کو بہترین اور باصلاحیت افراد میسر آسکتے ہیں حریف ملک ہندوستان میں سول سروس کا اعلی امتحان متعدد زبانوں میں لیا جاتاہے اگر پاکستان میں انگریزی کو برقرار بھی رکھنا ہے تو سی ایس ایس کے امتحان کو دوزبانوں میں دینے کی اجازت دینے میں کیا مضائقہ ہے۔زبان کے فروغ میں ذرائع ابلاغ کے کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سو اتفاق ہے کہ آج کل اخبارات اور بالخصوص ٹی وی چینل میں ایسی ایسی اصطلاحات و الفاظ وجود میں آرہی ہیں جن کا اردو سے دور کا بھی تعلق نہیں اس کی وجہ سے اردو زبان کو نقصان پہنچ رہاہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اخبارات میں مغرب کی طرح اردو زبان کے ماہرین کو اور خبر جس موضوع سے متعلق ہو سائنسی ہو یا اقتصادی اس کے ماہرین سے استفادہ کیا جائے ۔
اردو زبان کو سب سے زیادہ نقصان ٹی وی چینل کے اینکر اور ہندی فلموں نے پہنچایا ہے لہذا ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کو قومی زبان سے مرتبط رکھنے کے لیے خصوصی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں۔نمل یونیورسٹی کے شعبہ ترجمہ کے سربراہ ڈاکٹر خالد اقبال یاسر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ زبان جدید دور کے تقاضے پورا کرنے میں معاونت کرے جیسے سائنسی و ٹیکنالوجی کے مضامین کو اردو میں ترجمہ کرکے پڑھایا جائے تو نوجوان بہت زیادہ باریک بینی سے ان علوم کو نا صرف سمجھ سکیں گے بلکہ اس کو سمجھ کر اس میں تحقیق و تجدید کا کام بھی کرپائیں گے۔ اردو زبان کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو معیشت کے ساتھ مرتبط کیا جائے جیسے ترجمہ کرنے والوں کو روزگار فراہم کیا جائے شاعر و ادبا اور اردو زبان کے ماہرین کے لیے سرکاری و نیم سرکاری بنیادوں پر آسامیوں کا اجرا بھی وقت کی ضرور ت ہے جیسے اسلامی خلافت کے زمانوں میں دارالتراجم موجود تھے اور ان کو بھاری بھر وظائف جاری کیے جاتے تھے۔
جدید علوم سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے چین کی طرح رورس انجینئرنگ سے بھی کام لیا جاسکتاہے کہ جن اصطلاحات کا ترجمہ ممکن نہیں ان کو از سر نو جائزہ لیکر ان کے نام رکھ لیے جائیں ۔ اردو زبان کسی بھی طرح مقامی و علاقائی زبانوں کی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہے یہ صرف انتشار وفساد پیدا کرنے کے لیے کہا جاتاہے کہ سندھی و پنجابی اور بلوچی و پختون کیسے ایک زبان پر متفق ہوسکتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ایک زبان پر بآسانی جمع ہوسکتے ہیں کیونکہ رابطہ کی زبان صرف اور صرف اردو ہے جس کو ہر ایک بآسانی سمجھ اور بول سکتاہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں نئی ثقافتی پالیسی جاری کی جائے اور اس میں اس بات کا خاص خیال رہنا چاہیے کہ قومی تشخص مجروح نہ ہونے پائے ۔ اس کے لیے اٹھارویںترمیم ردو قدح کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔انہوں نے کہا کہ عدالت عظمی نے جو نفاذ اردو کا حکم دیا ہے یہ ایک انسانی حقوق کا بھی مسئلہ ہے کہ جس شخص کے خلاف مقدمہ قائم کیا جاتاہے یا کوئی دعوی اور بات کی جاتی ہے تو اس کا حق ہے کہ اس کو اس کی زبان میں ہی فیصلہ سنایا جائے اور اس کی بات کو سنا بھی جائے تاکہ وہ جان سکے کیا اس کے حق میں بہتر ہورہاہے اور کیا غلط ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب عدالت عظمی نے بھی متعدد فیصلہ جات کو اردو زبان میں بھی جاری کرنا شروع کردیا ہے۔مذاکرہ کے آخرمیں تحریک نفاذ اردو پاکستان کے ناظم اطلاعات و نشریات عتیق الرحمن نے شرکا کی جانب سے متفقہ قراردادپڑھ کرسنائی جس کے مطابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب سے مطالبہ کیا گیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان اور آئین پاکستان اور عدالت عظمی کے فیصلہ کے مطابق قومی زبان اردو کے نفاذ کے سلسلہ میں بیوروکریسی کی جانب سے انحراف برتنے کا فی الفور نوٹس لیتے ہوئے تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں بالخصوص ایف بی آر،ادارہ فروغ قومی زبان، فیڈرل پبلک سروس کمیشن، ہائر ایجوکیشن کمیشن، وزارت تعلیم اور وزارت قانون کو اردو زبان کو فوری طورپر نافذ کرنے کے احکامات صادر فرمائیں(جس کی تفصیلی ہدایت عدالت عظمی کے فیصلہ میں بھی موجود ہے)تاکہ پاکستان کے ہر شہری کو قومی زبان کا بنیادی و آئنی حق مل سکے ۔اسی طرح ملک میں ترجیحی بنیادوں پر دارالتراجم قائم کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں ہیں اور سی ایس ایس کا امتحان قومی زبان کے ساتھ لینا اور ادارہ فروغ قومی زبان کو ایک مستقل ڈویژن بنانے کا بھی مذاکرہ کے شرکا نے مطالبہ کیا ہے۔تقریب اس دعاکے ساتھ اختتام پذیر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو دن دگنی اور راتچگنی ترقی عنایت فرمائے اور داخلی و خارجی دشمنوں سے مامون رکھے۔آمین