قائد اعظم محمد علی جناح بانیِ پاکستان ملت کے پاسبان ہیں۔ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔قائد اعظم نے اُس وقت کی اسلامی دنیا کی سب سے بڑی نظریاتی اسلامی سلطنت کی تخلیق تھی ۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان تو اُسی وقت ہی بن گیا تھا جب برعظیم کا پہلا فرد مسلمان ہوا تھا۔ مسلمان جرنیل محمد بن قاسم ثقفی سے لے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک ہندوستان پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زاہد حکمرانی کی تھی۔ پھر مسلمان حکمرانوں میں خرابیوں پیدا ہونے لگیں۔ انگریز تجارت کے بہانے ہندوستان آئے اور ریشہ دوانیوں اور غدرانِ ملت کی وجہ سے سے ملک ِ ہندوساتان کے حاکم بن بیٹھے۔ مسلمان انگریز سے آخر وقت تک لڑتے رہے۔مسلمانوں نے ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی انگریزوں کے خلاف لڑی۔ اس کی وجہ سے سفاک انگریزوں نے پندرہ ہزار علما اور پانچ لاکھوں مسلمانوں کو ہلاک کیا تھا۔( حوالہ چند ممتاز علماء انقلاب ١٨٥٧ء منصف علامہ یاسین اختر مصباحی صفحہ ١٤)۔ پھر جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں برطانیہ کا زوال شروع ہوا۔ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف نفرت نے زور پکڑا۔ پہلے پہل ہندو اور مسلمانوں نے مل کر انگریز کو ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ مگرہندوئوں نے مسلمانوں سے ایک ہزار حکمرانی کا بدلہ لینے کے لیے اکثریت کے فلسفہ سے مدد لینی چاہی۔ ہندئو لیڈروں نے کہا کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان اور ہندو ایک قوم ہیں۔ ہندوئوں میں قوم پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
ہندو لیڈروں نے کہا قومیں اوطان، یعنی وطن سے بنتیں ہیں۔کانگریسی مسلمانوں نے قائد اعظم کی مخالفت اور تاریخی غلطی کرتے ہوئے قومیت کے مسئلہ پر ہندوئوںکا ساتھ دیا۔ دُکھ کی بات ہے کہ اپنی روش سے باز نہیں آئے اور اب بھی بھارتی حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ہنددئوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ کشمیر میں جاری تحریک تکمیل پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں۔کشمیری مسلمان آٹھ لاکھ بھارتی قابض فوج ،جو کشمیریوںں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ کشمیری مسلمان احتجاجاً بھارتی قابض فوج پر پتھر پرساتے ہیں توکانگریسی مسلمان انہیں ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں۔
پھر یہ قائد اعظم تھے کہ جنہوں نے کہا کہ نہیں، ہندوستان میں دو قومیں رہتی ہیں ایک ہند واوردوسری مسلمان۔ ان کا مذہب الگ الگ ہے۔ہندئو اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ مسلمان صرف ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کی تہذیب،تمدن، کلچر، زبان رہن سہن اور کھانے پینے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ ان کے ہیرو الگ الگ ہیں۔ ایک کا ہیرو ہے تو ودسرے کا ولن۔ مسلمانوں اور ہنددئوں میںکوئی ایک چیز بھی مشترک نہیں ۔حتہ کہ ماضی قریب میں ہنددئوں کی ہندوستان میں کوئی حکومت بھی نہیں رہی۔ جبکہ مسلمان ہندوستان پر ایک ہزارسال سے زیادہ حکومت کر چکے ہیں۔لہٰذا مسلمانوںکو نظامِ حکومت کامیابی سے چلانے کا تجربہ بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن ملنا چاہیے کہ جس میں وہ اپنے مذہب، تہذیب و تمدن اور روایا ت کے مطابق رہ سکیں ۔ برصغیر کے مسلمان ١٤ سو سال قبل مدنیہ کی اسلامی فلاحی ریاست کی طرز کی حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم سے جب کسی نے سوال کیا کہ پاکستان کا آئین کیسا ہو گا۔ تو قائد اعظم نے٢٦مارچ ١٩٤٨ء چٹاگانگ میں فرمایا تھا” اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا (مقصدحیات) اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا”۔ قائد اعظم نے بٹی ہوئی مسلم لیگ کو مسلم قومیت پر منظم کیا۔ مسلمانوں کو اسلام کی پلیٹ فارم پر متحد کیا اور ١٩٤٠ء کی قراداد کے تحت دو قومی نظریہ پرپاکستان کا مطالبہ کیا۔
برصغیر کے مسلمانوں کو نعرہ دیا، پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ’ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ بن کے رہے پاکستان۔ لے رہیں پاکستان۔ پھر قائد اعظم کی پکار پر ان نعروں سے برصغیر کی فزائیں گوجنے لگیں۔ ہندوستان کے جن صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھاوہاں بھی اسلام کی محبت میں مسلمانوں نے قائد اعظم کا ساتھ دیا۔ قائد اعظم ملت کے پاسبان نے، علامہ شیخ ڈاکٹر محمد اقبال خابوں کے مطابق پاکستان حاصل کیا اورمسلمانوںکو اُن کی کھوئی ہوئی سلطنت پھر سے ملی۔
بھارت نے اوّل روز سے پاکستان کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ بھارت کے لیڈر تحریک پاکستان کے دوران کہا کرتے تھے کہ جب دو قومی نظریہ کے جذبات ٹھنڈے پڑھنے شروع ہونگے تو پھر ہم اَکھنڈ بھارت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بھارت نے اسی ڈاکٹرائین پر عمل کرتے ہوئے بنگلہ قوم پرستی کی تحریک سے مدد لے کر قائد اعظمسے ہندوستان کی تقسیم کا بدلہ لیا۔غدار پاکستان شیخ مجیب نے بنگلہ قومیت اور زبان کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف حقوق کی جنگ چھیڑ کر بھارت کی فوجی مداخلت سے پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ اور اب مذید دس ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
الحمد اللہ اب مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان آج ١٩٧٠ ء والا پاکستان نہیں ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی اورمیزائل طاقت والا پاکستان ہے۔ ویسے بھی پاکستان مشرق و مغرب کو ملانے والے دنیا کے بہترین محلے وقوع پر واقع ہے۔ اگر مسلمانوں کی بات کی جائے تو پاکستان کے ارد گرد مسلمانوں کا سمندر ہے۔ مشرق میں بھارت کے کروڑوں مسلمان، بنگلہ دیش،انڈونیشیا، ملیشیا تک، مغرب میں افغانستان ، اس سے آگے مسلم ملکوں کا بڑھتا ہوا مسلمان آبادی کا سمندر،شمال میں اس کی حفاظت میں کھڑاقدرتی حصار ہمالیہ کے پہاڑ اور جنوب میں ٹھاٹیں مارتا ہوا نیل گوں سمندر ہے۔ دیکھا جائے توپاکستان کا ازلی د شمن بھارت تو مسلمانوں کے اس سمندر کے اندر صرف ایک جزیرہ ہے۔ اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان سے ازلی دشمنی نبھاتے ہوئے اِس کے مذید ٹکڑے نہیں کر سکے گا۔ بلکہ بھارت میں جاری کشمیر اور خالصتان سمیت علیحدگی کی درجن بھر تحریکیں اس کو ١٢ ٹکڑوں میں تقسیم کریں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ، اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سارے ستون، سیاست دان، فوج اور عدلیہ ایک پیج پر ہیں۔
اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔ قائداعظم نے پاکستان بننے کے بعد ڈھاکہ میں پاکستان کی قومی زبان اُردو ہونا کا اعلان کیا تھا۔ ہندوستان میںاُردو، ہندی کے مقابلہ میں مسلمانوں کی زبان تھی۔ اُردو پورے پاکستان میں بولی ،پڑھی ،لکھی،جانی اوررابطے کی زبان ہے۔کسی بھی قوم کی یکجہتی کے لیے ایک قومی زبان کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جنتا اس مملکت کا وجود۔ اُردو برصغیر ہند و پاکستان میں مسلمانوں کے دور حکمرانی کے دوران مختلف زبانوں کے مخلوبے سے وجود میں آئی۔ سنسکرت، ہندی، عربی، فارسی، لشکری ، انگریزی ،ریختہ کہلاتی ہوئی ساری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر جذب کرتی ہوئی اب پاکستانی اُردو ہے۔
اُردو اس وقت دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق اس کو سرکاری طور پر بھی رائج ہونا تھا۔ مگر مقررہ وقت تک پاکستان میں رائج نہ سکی۔ پھرسپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی حکومت کو اُرود کو رائج کرنے کے لیے آڈر جاری کیے۔ مگر بیروکریٹ جو مقابلے کے امتحان انگریزی میں دے کر نوکریاں حاصل کرتے ہیں، اُردو کی عملی نفاذ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے ہیں۔ اگر حکومت وقت، مقابلہ کے امتحان کو اُردو میں کر دے تو یہ سازش ناکام ہو سکتی ہے۔ایک صاحب درد وکیل نے سپریم کو رٹ میںرٹ پیٹیشن داخل کی کہ آ ئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کر کے اُردو کو فوراً نافاذ کیا جائے۔ کیا جائے انگریزسے مرغوب یا کسی کے اَلہ کار بننے والے بے سمت حکمران اوراِس کی غلام ذہنیت والے بیرکریٹس جو اختیارات ہوتے ہوئے بھی اُردو کو مکمل طور پر سرکاری زبان نہ بنا سکے۔
دنیا میںجن ملکوں نے بھی ترقی کی ہے وہ اپنی مادری زبان کی وجہ سے کی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت، جس نے عوام سے پاکستان میں، علامہ اقبال کے خواب اور قائداعظم کے وژن کے مطابق مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کا وعدہ کیا ہوا ہے، پاکستان کی قومی زبان اُردو کو فوراً رائج کر دے۔ پھر قائد اعظم اور قومی زبان، اُردو والی، ایٹمی، میزائل طاقت والی، مملکت اسلامی جمہوریہ، مثل مدینہ پاکستان، اُردو کے سائے میں ترقی کرتا ہوا دنیا کا ترقی یافتہ پاکستان بن جائے گا۔ انشاء اللہ۔