بہت سارے اشعار ہمارے ذہن میں محفوظ ہوتے ہیں۔ موقع محل کی مناسبت سے ہم ان کا استعمال بھی کرتے ہیں لیکن کسی خاص وقت، موقع یا حالات کے تناظر میں وہی اشعار ہمیں ایک نئے جہانِ معانی سے روشناس کراتے ہیں۔ خواجہ حافظ شیرازی کا ایسا ہی ایک شعر ہے ؎ ہرگز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
’عشق‘ میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عشق سے متعلق اشعار بغیر کسی کوشش کے مجھے بہت آسانی سے یاد رہ جاتے ہیں۔ یہ میرا بہت ہی پسندیدہ شعر ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ اس شعر کے عارفانہ مفہوم تک اگر کسی کی رسائی ہو جائے تو اس پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو سکتی ہے ۔ یہ شعر مجھے برسوں سے یاد ہے لیکن سچ پوچھیے تو اس شعر کی لذت مجھے جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا، مغربی چمپارن کی روحانی فضائوں میں کچھ وقت گزارنے کے بعد محسوس ہوئی۔ ایک زمانے سے اس ادارے کا نام سنتا چلا آ رہا تھا۔کئی لوگوں نے بتایا تھا کہ ’بتیا‘ (مغربی چمپارن) سے تقریباً بیس کلومیٹر دور بالکل دیہی اور غیر آباد علاقہ میں صرف حفظِ قرآن کا ایک ادارہ قائم ہے۔اس ادارہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ایسا ’قرآنی ماحول‘ ہے کہ ہر وقت ’صدائے قرآنی‘ بلند ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ مدرسہ سے متصل کھیت کھلیان میں کام کرنے والے مزدور بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے کام میں مصروف نظر آتے ہیں۔ میری بہت خواہش تھی کہ اس ادارے کو قریب سے دیکھوںکہ آخر ’حفظِ قرآن‘ کے تو بے شمار ادارے ہیں لیکن اتنے غیر آباد علاقے میں قائم اس ادارے کو اتنی شہرت کیوں اور کیسے حاصل ہے؟
گزشتہ 13 جنوری کومیری دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ اپنے دوست نوجوان عالم دین مولانا نظر الہدی قاسمی صاحب کے ساتھ غروب آفتاب کے وقت’بتیا‘ بس اسٹینڈ پر اترتے ہی ہمیں ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہوا نظر آیا۔یہ محبتوں کا سورج تھا۔ جس کی حرارت مردہ دلوں کو بھی زندگی بخش دیتی ہے۔ ’بتیا بس اسٹینڈ‘ پر جامعہ اسلامیہ قرآنیہ، سمرا کے استاداور خوش فکر نوجوان شاعر حافظ و قاری حسن امام قاسمی صاحب ہمارے منتظر تھے۔ ہم نے راستے میں ہی فون پر انہیں منع کیا تھا کہ وہ ہمارے لیے کوئی زحمت نہیں اٹھائیں گے، ہم لوگ خود ہی سمرا تک پہنچ جائیں گے لیکن حافظ حسن امام قاسمی صاحب بنفس نفیس ہمارے بیتا پہنچنے سے قبل سے ہی بس اسٹینڈ پر موجود تھے۔ ان کے ساتھ تقریباً آدھا گھنٹہ بائک سے چلنے کے بعد ہم لوگ سمرا مدرسہ کے وسیع و عریض احاطے میں پہنچ چکے تھے۔ بتیا سے سمرا تک کی روڈ بالکل پختہ اور صاف ستھری تھی۔ حسن امام قاسمی صاحب نے بتایا کہ تقریباً دیڑھ دو سال قبل پکی سڑک بنائی گئی ہے، اس سے پہلے راستہ بالکل ناہموار اور خستہ تھا۔ شہر آنا جانا بہت ہی مشکل تھا۔
سمرا پہنچتے ہی سب سے پہلے تو یہ ہوا کہ تصور میں سمرامدرسہ کی جو تصویر بنی ہوئی تھی وہ ٹوٹ کر پاش پاش ہو گئی۔میں سمجھ رہا تھاکہ اتنے غیر آباد علاقے میں کوئی چھوٹی موٹی چھونپڑی نما عمارت ہوگی جہاں دوسرے مدارس کی طرح کسمپرسی کے عالم میں کچھ اساتذہ اور طلبہ علم دین کا چراغ روشن رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہوں گے۔لیکن یہاں تو تصویر ہی دوسری تھی۔پرانے طرز کی بنی ہوئی سہ رخی عمارت کو دیکھ کر کچھ دیر کے لیے تو میں بالکل دنگ ہی رہ گیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھاکہ مدرسہ کی عمارت فخر سے ہمارا استقبال کر رہی ہو اور کہہ رہی ہو کہ دیکھو! ہمارے در و دیوار سے ’نسبتِ قرآن‘ کی عظمت ظاہر ہو رہی ہے۔ عمارت کے نقش و نگار کو دیکھنے کے لیے نظریں اوپر کی طرف اٹھ رہی تھیں لیکن پھرفوراً جھک جاتی تھیں گویا عقیدت سے تعظیم بجا لا رہی ہوں۔
ہمیں مہمان خانہ میں ٹھہرایا گیا۔ مہمان خانہ بہت بڑا تو نہیں تھا لیکن بہت ہی نفیس تھا۔ فریش ہونے کے بعد ہم حسن امام قاسمی صاحب کی ’کلاس‘ میں پہنچ گئے۔ وہاں تقریباً بیس پچیس بچے دائرہ بنائے ہوئے دو زانو بیٹھے ،سبق دہرا رہے تھے۔ہمیں دیکھتے ہی سب کے سب اٹھ کھڑے ہوئے اور فرداً فرداً آکر اس طرح مصافحہ کرنے لگے گویا ہم کوئی بہت بڑی شخصیت ہوں۔ بچے بہار کے مختلف اضلاع کے تھے۔ ان کی عمرآٹھ سے بیس کے درمیان کی ہوگی۔ حسن امام بھائی نے بتایا کہ یہاں جو بچے آتے ہیں وہ صرف ’دور‘ کے لیے آتے ہیں۔ یعنی ان کا حفظ مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا آپ کی جماعت کا سب سے کم عمر یعنی آٹھ سال کا بچہ بھی حفظ کر چکا ہے اور اب دور کر رہا ہے؟ حسن امام بھائی نے بتایا کہ صرف وہی نہیں بلکہ یہاں آپ کو جو بھی بچے نظر آرہے ہیں سب حفاظ ہیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا تو کیا یہاں شروع سے حفظ نہیں کرایا جاتا؟ انہوں نے بتایا کہ بالکل شروع سے حفظ کا الگ شعبہ ہے جس میں صرف مقامی بچے پڑھتے ہیں۔ حسن امام صاحب کی کلاس میں ہی ہماری ملاقات ’قاری عابدؔ‘ صاحب سے ہوئی۔ وہ بھی یہاں مدرس ہیں۔ ان کی ’کلاس‘ حسن امام صاحب کی کلاس سے متصل تھی۔ قاری عابد صاحب نے پہلی ملاقات میں ہی اپنی شخصیت کا وہ جادو چلایا کہ جس کے اثرات سے باہر نکلنا شاید تازندگی ممکن نہیں ؎
پہلی نظر وہ آپ کی اُف کس بلا کی تھی ہم آج تک وہ چوٹ ہیں دل پر لیے ہوئے
مسکراتا ہوا متین و شائستہ چہرا۔ چہرے پر قرآن کی عظمت کے نشان۔ آنکھیں ایسی گویا مقدس خوابوں کا سرچشمہ ہوں۔ گفتگو میں ٹھہرائو اور نرمی۔حسن امام قاسمی ، قاری عابد اور مولانا نظر الہدی قاسمی صاحبان کے ساتھ ابھی بات چیت کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ عشاء کی اذان ہو گئی۔تھوڑی دیر بعد ہم لوگ مدرسہ کی جامع مسجد میں تھے۔مسجد اساتذہ اور طلبہ سے بھری ہوئی تھی۔ جماعت میں کم و بیش ایک ہزار مصلیان تو ہوں گے ہی۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا اس مجمع کا سب سے کم نصیب انسان میں ہی ہوں۔یقینا اتنے بڑے مجمع میں اکیلامیں ایسا شخص تھا جو غیر حافظ تھا اور شرٹ پینٹ میں نظر آرہا تھا۔ امام کی قرأت اتنی دلکش اور پراثر تھی گویا کانوں میں رس گھل رہا ہو۔نماز کے دوران ایک چیز جو نوٹ کرنے لائق تھی وہ یہ کہ مصلیان میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ موجود تھے۔ جہاں ایک طرف آمین بالجہر اور رفع الیدین کرنے والے طلبہ نظر آ رہے تھے وہیں ’’اشھد ان محمد الرسول اللہ‘‘ پر انگلیوں کو آنکھوں سے لگاتے ہوئے طلبہ بھی نظر آئے۔ حسن امام قاسمی صاحب نے بتایا کہ اس مدرسہ میں مسلکی شدت پسندی بالکل بھی نہیں ہے۔
ہمارے یہاں ہر مکتبہ فکر کے طلبہ موجود ہیں۔ یہاں مسلک کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ عشاء کی نماز کے بعد ہم لوگ مطبخ کی طرف چلے آئے۔کھانے کے لیے طلبہ کی قطار لگی تھی لیکن کوئی شور و غل نہیں تھا۔ سب بہت ہی مہذب طریقے سے کھڑے تھے۔ کچھ بچے دھیرے دھیرے قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔کچھ اساتذہ اور طلبہ کھانا کھلانے پر معمور تھے۔ ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں اساتذہ اور طلبہ کے لیے ایک ہی طرح کا کھانا بنتا ہے۔ ان کے کھانوں میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ تھوڑی دیر بعد مہمان خانہ میں ہم لوگوں کے کھانے کا انتظام بھی ہو چکا تھا۔ حسن امام بھائی کی ضیافت کے آگے دسترخوان چھوٹا نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پاس میں ہی ان کی سسرال ہے۔ کھانا وہیں سے بنواکر منگوایا گیا ہے۔کھانے سے فراغت کے بعد ہم لوگ مدرسے کی پہلی منزل پر تھوڑی دیر تک ٹہلتے رہے۔ واپس مہمان خانہ میں آکر کچھ دیر بات چیت ہوتی رہی۔ ہمارا پروگرام تھا کہ اگلے دن صبح مہتمم صاحب سے ملنے کے بعد ہم لوگ ’خیروا‘ چلے جائیں گے۔(خیروا میں بھی سمرا کی طرح ایک بڑا اور مشہور مدرسہ قائم ہے)۔ ہمارے جانے کی بات سے حسن امام بھائی کا چہرا بالکل بجھ سا گیا۔ ان کے چہرے کا بدلتا ہوا رنگ گواہی دے رہا تھا کہ اتنی جلدی رخصت ہوجانا انہیں منظور نہیں۔ہمارے اصرار سے مجبور ہو کر وہ راضی تو ہو گئے لیکن سونے سے قبل واٹس ایپ پر ان کا میسج موصول ہوا۔ ’’خیروا کا پروگرام کینسل کر دیجیے کامران بھائی‘‘۔ میں نے یک لخت فیصلہ کر لیا کہ اب خیروا نہیں جانا ہے۔ پھر کسی موقع سے آئوں گا تو خیروا دیکھ لوں گا۔ نظر الہدی بھائی سے ذکر کیا۔ وہ بھی راضی ہو گئے۔
رات میں جب تک نیند نہیں آئی تلاوتِ قرآن کی آوازیں آتی رہیں۔ صبح تقریباً پانچ بجے آنکھ کھلی۔ اس وقت بھی تلاوت قرآن کی آواز ذہن و دماغ کو روحانی فرحت بخش رہی تھی۔فجر کی نماز کے بعد میں نے حسن امام بھائی سے پوچھا کہ رات میں بچوں کو کب تک پڑھایا جاتا ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ عشاء کے بعد کوئی کلاس نہیں ہوتی بلکہ ہم لوگ تو بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ عشاء کی نماز اور کھانے کے بعد کچھ دیر چہل قدمی کر کے سو جایا کریں۔ بچے خود ہی اس ماحول میں آنے کے بعد یہاں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ بس اتنی سی دیر میں ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں اساتذہ ہوں یا طلبہ سب کا مشغلہ صرف اور صرف ’تلاوتِ قرآن‘ ہے۔
صبح چائے اور ناشتے کے بعد حسن امام بھائی نے مدرسہ کے مہتمم مولانا بشیر احمد صاحب جامعی سے ہماری ملاقات کروائی۔ بشیر صاحب اس مدرسہ میں تقریباً بچاس برسوں سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔قاری بشیر صاحب نے ہمیں مدرسے کے تعلق سے مفید معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس مدرسہ کا قیام تقریباً دو سو سال قبل عمل میں آیا تھا۔ اس وقت اعظم گڑھ سے مولانا احسان اللہ صاحبؒ اور گورکھ پور سے مولانا جعفر علی صاحبؒ یہاں تشریف لائے تھے۔ اس وقت یہ علاقہ بہت ہی پسماندہ تھا۔ جہالت عام تھی۔ ان بزرگوں نے پہلے یہاں ایک مکتب قائم کیا جسے بعد میں مدرسہ کی شکل دے دی گئی۔شروع میں مدرسہ ’بوڑھی گنڈک‘ ندی کے اُس پار تھا، جسے بعد میں یہاں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں حفظ قرآن کی شروعات حافظ عنایت حسین گورکھپوریؒ کے زمانے سے ہوئی۔لیکن اس مدرسہ کو بامِ عروج تک پہنچانے میں حافظ بادشاہؒ (عبدالحافظ)کا سب سے اہم کردار رہا ہے۔حافظ بادشاہؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا مزار پہلے پرانے والے مدرسے کے احاطے میں تھا۔حافظ بادشاہ کے انتقال کے تقریباً بیس بائیس سال بعد 1964ء میں کسی نے خواب دیکھا کہ حافظ بادشاہؒ کے مزار میں پانی داخل ہو گیا ہے اور وہ اپنی لاش کو منتقل کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ علماء سے مشورے کے بعد جب ان کی خبر کھولی گئی تواتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کا جسم بہت حد تک محفوظ تھا۔ بشیر صاحب نے بتایا کہ اس منظر کو دیکھنے والے کچھ لوگ ابھی بھی موجود ہیں جن سے اس واقعہ کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
قاری بشیر صاحب نے بہت پر اعتماد لہجے میں کہا کہ یہ صرف قرآن پاک کا فیض ہے کہ روزانہ تقریباً ایک ہزار اساتذہ اور بچے اطمینان کے ساتھ بھر پیٹ کھاناکھاتے ہیں حالانکہ مدرسہ کو بہت زیادہ عوامی چندہ بھی نہیں مل پاتا۔ شہر میں کئی چھوٹے بڑے مدارس قائم ہیں۔ عوامی چندہ مختلف مدارس میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ پھر یہ کہ ہم عوامی چندے کے لیے بہت زیادہ جدجہد بھی نہیں کرتے۔ اللہ کا فضل ہے کہ اہلِ خیر حضرات جو اس مدرسے کی خدمات سے واقف ہیں خود ہی دست تعاون دراز کرتے ہیں۔مہتمم صاحب سے بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ان کی گفتگو سے علم، تجربہ، بزرگی، عزم و ہمت اور حکمت کا سرچشمہ پھوٹ رہا تھا۔
مہتمم صاحب سے گفتگو کے بعد ہم لوگ دیر تک مدرسہ کیمپس کے باہرگھومتے رہے۔مدرسہ سے قریب ہی ایک بہت بڑی نئی تعمیر شدہ نامکمل عمارت دیکھ کر ہمیں حیرت ہوئی۔ حسن امام قاسمی صاحب اور عابد صاحب نے بتایا کہ یہاں لڑکیوں کا ایک بڑا مدرسہ بنانے کا منصوبہ تھا۔ اس کے لیے سابق مرکزی وزیر ارجن سنگھ نے کثیر رقم بھی جاری کی تھی لیکن ارجن سنگھ کے انتقال کے بعد یہ منصوبہ بھی وہیں کا وہیں رہ گیا۔ویران عمارت کے در و دیوار دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا۔ کاش کہ ہمدردان قوم ملت اس ادارہ کی تعمیر کے سلسلہ میں سنجیدہ ہو تے تو قوم کی بیٹیوں کو ایک بہترین ادارہ مل پاتا۔
نماز ظہر سے فراغت کے بعد ایک بار پھر ہم لوگ حسن امام قاسمی بھائی کے ’سسرالی کھانے‘ سے لطف اندوز ہوئے۔ کھانا کھلانے میں مدرسے کے بچے اس طرح پیش پیش تھے گویا ہم لوگ کوئی شاہی مہمان ہوں۔
نماز عصر کے فوراً بعد ہم لوگوںنے واپسی کا رخت سفر باندھ لیا۔حسن امام قاسمی بھائی اور عابد صاحب ہمیں چھوڑنے اپنی موٹر سائکل سے بتیا تک آئے۔ ان لوگوں نے پہلے ہی ذکر کیا تھا کہ بتیا میں مدرسہ کے ناظم حافظ سعید صاحب رہتے ہیں۔ حفظ قرآن کے معاملہ میں پورے علاقہ میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ہمیں ان سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد ہمیں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔سعید صاحب کی ہر ہر ادا سے بزرگی ظاہر ہو رہی تھی۔پرکشش چہرہ، پاکیزہ آنکھیں، شیریں لہجہ۔۔۔۔ مجھے انہیں دیکھ کر بشیر بدر کا یہ شعر یاد آ رہا تھا ؎
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
لیکن ان کی شخصیت کے سامنے کچھ کہتے ہوئے بھی بے ادبی کا گمان ہو رہا تھا۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ پٹنہ یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے ہیں۔وہ بہت کم بول رہے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ علم کا ایک سمندر ان کے سینے میں مدفون ہے۔دل تو بالکل بھی نہیں چاہ رہا تھاکہ ایسی محفل سے اٹھاجائے لیکن رات ہو رہی تھی اور ہمیں واپس بھی ہونا تھا۔ حافظ سعید صاحب کی خواہش تھی کہ ہم لوگ کھانا کھا کر جائیں ۔ایک طرف ان کی بزرگی اور باوقار شخصیت ہمیں انکار سے روک رہی تھی تو دوسری طرف سردی کی تھنڈی رات اور گھر تک پہنچنے کی فکر ہمیں’جرمِ انکار‘ پر مجبور کر رہی تھی۔ حافظ سعید صاحب کی دوراندیش آنکھوں نے شاید ہمارا چہرا پڑھ لیا تھااس لیے یہ کہتے ہوئے ہمیں اجازت دینے کو تیار ہو گئے کہ ’موقع نکال کر پھر آئیے اور مجھے بھی کچھ وقت دیجیے۔‘
حسن امام قاسمی بھائی اور قاری عابد صاحب ہمیں بس پر بیٹھانے بس اسٹینڈ تک ساتھ آئے۔ رخصت کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے فرقت کا کرب چھلک رہا تھا۔ خاص طور پر حسن امام قاسمی بھائی کی آنکھیں تو بالکل آبدیدہ تھیں۔ مجھے اپنا بچپن یاد آگیا، جب چھٹیوں میں رشتے دار اور احباب ملنے آتے تھے، کچھ روز قیام کرتے تھے اور جب وہ رخصت ہوتے تھے تو ایسا لگتا تھا گویا ہم سے ہماری کوئی قیمتی چیز چھینی جا رہی ہو۔ محبت کے یہ جذبات اب صرف تحریر و تقریر میں نظر آتے ہیں۔ غنیمت ہیں وہ لوگ جو محبت کے اس درد کے محافظ ہیں۔
بس میں بیٹھے بیٹھے مجھے خواجہ حافظ شیرازی کا شعریاد آرہا تھا۔ واقعی حافظ بادشاہؒ جیسے اہل عشق، اہلِ معرفت اور قلندر صفت لوگ اور ان کی یادگاریں ہمیں حق و معرفت کے مفاہیم سے آشنا کراتی رہیں گی ؎ ہر گز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما