ملکہ غزل اقبال بانو کی چوتھی برسی آج منائی جا رہی ہے۔اقبال بانو نے غزل گائیکی میں راج کیا ہے اور اپنے خوبصورت اندزا گائکی سے غزل کے مداحوں میں اضافہ کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ موسیقی کی اس صنف میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا تو غلط نہ ہو گا۔ اب وہ من موہنی، کھنک دار اور سریلی آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چپ ہو چکی ہے۔
انیس سو پینتیس میں دہلی میں پیدا ہونے والی اقبال بانو نے دہلی گھرانے کے استاد چاند خان سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ انیس سو ستاون میں لاہور آرٹس کونسل کے ایک پروگرام سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور پھر ریڈیو پاکستان لاہور کے ذریعے ان کی آواز کا سحر دور دور تک پھیل گیا۔
اقبال بانو کی فلمی، غیر فلمی غزلیں اور گیت ہر عمر اور ہر دور کے لوگوں میں مقبول رہے ہیں۔۔انہوں نے فیض احمد فیض کے مزاحمتی اور انقلابی کلام کو اس وقت گایا، جب فیض کا کلام پڑھنا جرم سمجھا جاتا تھا۔
موسیقی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اقبال بانو ایک انمول تحفہ تھیں جو قدرت صدیوں میں کسی قوم کو عطا کرتی ہے۔ اقبال بانو اب اس جہان میں نہیں رہیں لیکن ان کی گائی ہوئی غزلیں ، گیت اور مزاحمتی کلام، ان کو سننے والوں کے ذہنوں اور دلوں میں زندہ رکھے گا۔