لاہور (جیوڈیسک) معروف غزل گائیک اور گلوکارہ اقبال بانو کو مداحوں سے بچھڑے 7 برس بیت گئے۔
اقبال بانو نے 1935 میں نئی دلی میں آنکھ کھولی، سُر سنگیت اقبال بانو کی گھُٹی میں تھا ، سنِ بلوغت کو پہنچنے پر جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے دہلی مرکز سے گانا شروع کیا تو اُردو کے معیاری تلفظ اور ادائیگی کے دہلوی انداز سے اُن کی شناسائی ہوئی۔
1952 میں شادی کے بعد اپنے شوہر کے ہمراہ پاکستان آگئیں اور ملتان میں رہائش پذیر ہوئیں تاہم شوہر کی وفات کے بعد انہوں نے لاہور میں سکونت اختیار کی اور اپنی بقیہ تمام زندگی اسی شہر میں گزاری۔ اقبال بانو نے پاکستان کی نوزائیدہ فلم انڈسٹری میں ایک پلے بیک سنگر کے طور پر اپنی جگہ بنالی تھی، گمنام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشقِ لیلیٰ، اور ناگن میں شامل ان کے گائے ہوئے گیت اورغزلیں آج بھی مقبول ہیں، کئی معروف فلمی گیت گانے کے بعد بھی اقبال بانو کا دِل کلاسیکی صنف موسیقی میں اٹکا رہا اور پھر ایک وقت آیا جب انہوں نے پس پردہ گلوکاری سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے خود کو صرف اور صرف نیم کلاسیکی محفلوں تک محدود کرلیا۔
وہ نہ صرف لفظوں کو ان کی بھرپور معنویت کے ساتھ ادا کرتی تھیں بلکہ ان کے اندر رچی موسیقیت سے بھی بہ خوبی واقف تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی شہرت کا سبب غزلیں اور نظموں کی گائیکی بنی۔ فیض احمد فیض کے کلام کو گانے کے حوالے سے مہدی حسن کے بعد سب سے اہم نام اقبال بانو کا ہے، یہی وجہ تھی کہ فیض کی نظم ‘لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے’ اقبال بانو کا وجہ شہرت بن گئی اور ہر محفل میں اس کی فرمائش کی جاتی تھی، یہ سلسلہ ان کی وفات سے چند برس پہلے تک جاری رہا۔
اقبال بانو کوغزل گائیکی کے ساتھ ساتھ کلاسیکل ، نیم کلاسیکل، ٹھمری اوردادرہ میں بھی خاص ملکہ حاصل تھا۔ وہ اردو، پنجابی ، فارسی زبانوں پر مکمل عبور رکھتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مختلف زبانوں میں غزل گائیکی میں اپنی خصوصی مہارت سے نمایاں مقام حاصل کیا۔ اقبال بانو کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1990 میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
اقبال بانو 21 اپریل 2009 کو 74 برس کی عمر میں مختصرعلالت کے بعد جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔ آج وہ ہم میں نہیں مگر منفرد انداز میں گائی گئی غزلوں کی بناء پر وہ آج بھی اپنے پرستاروں کے دلوں میں زندہ ہیں۔