کیا ملکی ترقی آزادی اور انقلاب مارچ سے ہی ممکن ہے

March Revolution

March Revolution

آج ملک کے سیاسی بحران کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورت میں یہ محسوس ہونے لگاہے کہ جیسے سیاسی بحران کسی حل پر نکلنے سے پہلے حکمرانوںاور سیاستدانوں کی ذاتی لڑائی اور اَناکی وجہ سے کسی اور سمت پر چل پڑاہے، ایوانوں میں حکمرانوں اورسیاستدانوں کی چپقلش کو آزادی اور انقلاب مارچ والے اپنی کامیابیوں سے تعبیرکررہے ہیں اور اِس پرایوان والے آزادی اور انقلاب مارچ والوں کے دھرنوں کو بغاوت کہہ رہے ہیںاور اِنہیں خانہ بدوش اور لشکری کہہ کر مخاطب کررہے ہیں جوکہ غیر مناسب ہے ،اِس حکومتی رویئے پر جہاںانقلاب اور آزادی مارچ والے اپنی ہتک محسوس کررہے ہیں تو وہیں اِن کی اَناکو بھی ٹھیس پہنچ رہی ہے، یہ کیساتضاد ہے کہ ایک طرف حکمران دھرنیوں کو بُرابھلاکہہ رہے ہیں۔

تو دوسری جانب اِس سے مثبت مذاکرات بھی شروع کئے ہوئے ہیں اَب ایسے میں حکمرانوں کی طرف سے دھرنیوں کو غلط الفاظ سے مخاطب کئے جانے کی وجہ سے کسی کروٹ بیٹھتے مذاکراتی عمل کوبھی متاثرہونے کا خدشہ موجودہ ہے ،حالانکہ اسلام آبادمیں آزادی اور انقلاب مارچ والوں کا احتجاج کسی نہ کسی حد تک توجائز اور آئینی ضرور ہے جو اِن کا بنیادی حق بھی ہے، مگر پھر بھی پتہ نہیں کیوں ہمارے حکمران انقلاب اور آزادی مارچ والوں کے دھرنے اور احتجاج کو بُراسمجھ رہے ہیں…؟؟جبکہ احتجاجی اپنے مطالبات کی منظوری تک پُرامن ہیں اور پُرامن ہی رہنے کاعزم کئے ہوئے ہیں ، آج ایسے میں ہر فرد کی زبان پہ بس صرف ایک ہی سوال ہے کہ” کیامُلکی ترقی آزادی اور انقلاب مار چ سے ہی ممکن ہے..؟” تو اِن افرادکے سوال کا جواب اگلی سطورمیں تلاش کیاجاسکتاہے۔

بہرحال …! مُلک کی موجودہ سیاسی و غیریقینی صورتِ حال اور سیاسی بحران پر قبل اِس کے کہ میں مزید کچھ کہوں، لکھوں یا سمجھانے کی کوشش کروں ، توآپ سب سے پہلے آزادی اور انقلاب کے بارے میں یہ جان لیجئے کہ دنیاکا اِن سے متعلق کیا خیال ہے اور وہ کیا کہتے ہیں ..؟کرنل قذافی کا آزادی کے بارے میں یہ خیال ہے کہ “اِنسان کی آزادی اُس وقت تک بے کارہے جب تک اِس کی ضروریات دوسرے کی تحویل میں ہیں”جی ہاں..!یقیناآج جیسے ہماری ضروریات پر ہمارے حکمرانوں کاقبضہ ہے،اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک اپنی اُس آزادی سے محروم ہیں جس کے لئے ہم نے اپنا یہ آزادوطن پاکستان حاصل کیا تھا،اِسی طرح دنیاکے اہلیان دانش کہتے کہ آزادی کا مطلب بہترصورتِ حال حاصل کرنے کا جذبہ ہے۔

سارترکا کہناہے کہ” اِنسان آزادرہنے کے لئے پیداہواہے”جب کوئی اِنسان کو اِس کے اِس بنیادی حق سے محروم رکھتاہے تو یہی دیکھاگیاہے کہ ہر زمانے کی ہر تہذیب کے ہر اِنسان میں جب بھی اپنے اِس حق کے حصول کے لئے بیداری پیداہوتی ہے تو وہ انقلاب کی شکل اختیارکرلیتی ہے،اور جب بھی آزادی اور انقلاب کے مخالف آزادی کے حق میں کی گئی تقریروں اور باتوں کے جواب میں کوئی دلیل نہیں دے سکتے ہیں تو وہ گلے پھاڑ پھاڑ کر چیختے چلاتے ہیں اور جب اِس سے بھی کوئی کام نہیں چلتاہے توپھر آزادی اور انقلاب کے متلاشیوں پر گولیاں برساتے ہیںیکدم اِسی طرح کی گولیاں جیسے کہ 30اگست کی رات ریڈزون کے ڈی چوک سے آگے کی جانب بڑھنے والے نہتے آزادی اور انقلاب مارچ والے دھرنیوں پراسلام آباد میں موجود مُلک کے طول وارض سے آئی ہوئی پولیس نے شیلنگ اور اندھادھندفائرنگ سے کئی نہتے پاکستانیوں کو ہلاک اور سیکڑوں کو زخمی کیا جن میں بچے ، خواتین،بوڑھے اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پرسنزبھی شامل تھے۔

قارئین حضرات..!وقت و حالات یہ تقاضہ کررہے ہیں کہ راقم الحرف انقلاب سے متعلق ارسطوکے کہے کو بیان کرکے بتاناچاہتاہے کہ”انقلاب چھوٹی چھوٹی باتوں سے متعلق نہیں ہوتے بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے پیداہوتے ہیں” اور اِسی طرح آج اگرکوئی افلاطون کے اِس کہے کو مان لے جو اِس نے صدیوں پہلے انقلاب سے متعلق کہا تھاتو آج وہ یقینا میرے دیس پر پورااُترتاہوادکھائی دے رہاہے اور اَب اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اطلاطون نے اِنقلاب سے متعلق جوتاریخی جملے کہے ہیں یہ اپنے اندربڑی اہمیت کے حامل ہیں اِس کا کہناہے کہ “سماجی تغیرات افرادکی کاوشوں سے رونماہوتے ہیں لہذاہمیں اگرکوئی مردِ دانایا اِنسانی کامل دستیاب ہوجائے تو معاشرے کی سب خرابیاں دورہوسکتی ہیں۔

Tahir ul Qadri, Imran Khan

Tahir ul Qadri, Imran Khan

آج اگر ہم افلاطون کے اِس کہے کی روشنی میں مُلک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال میں آزادی اور انقلاب مارچ کے دھرنوں کے حوالوں سے جائزہ لیں تو ہمیں یہ یقین ہوجاناچاہئے کہ آج ہمیں اپنی سماجی تغیرات کے لئے علامہ طاہر القادری اور عمران خان کی شکل میں ایک نہیں بلکہ دومردِ دانا اور معاشرے کی سب خرابیاں دورکرنے کے لئے اِنسانِ کامل مل چکے ہیں بشرطیکہ یہ کسی اور (میرامطلب ہے کہ اغیارجن میں کینیڈا،امریکا، برطانیہ اور اِنہیں کی طرح دوسرے ظاہر وباطنی طور پر شامل ہوں اُن )کے ایجنڈے اور اسکرپٹ پر عمل درآمدنہ کررہے ہوں تو ممکن ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی سماجی تغیراتی عمل اِن ہی(دونوں ) افرادکی کاوشوں سے رونماہوجائیں اور ہم بھی آزادی اور انقلاب سے بہرامندہوپائیں،جیساکہ دانا نے کہاہے کہ کسی بھی زمانے کی کسی بھی تہذیب کے کسی بھی معاشرے میں کسی بھی طرح کاانقلاب شروع میں صرف کسی ایک شخص کے دماغ کی سوچ ہوتاہے پھر جب وہی سوچ کسی دوسرے شخص کی ذہن میں پیداہوجاتی ہے۔

تو اِنقلاب کی راہ ہموار ہوجاتی ہے ،اَب یہ کوئی مانے یانہ مانے مگرآج اِس میں کوئی شک نہیںہے کہ آج میرے مُلکِ پاکستان میں اپنے ہی لوگوں( مفادپرست حکمرانوںاور سیاستدانوں کے ہاتھوں اپنے غضب شدہ بنیادی حقوق اوراپنی آزادی کے حصول اور معاشرتی تغیراتی تبدیلیوں کے لئے انقلاب اور آزادی مارچ کے ساتھ جو لوگ نکلے ہیں اور اسلام آبادکے انتہائی احساس علاقے ریڈزون میں جو افراددھرنے دے کربیٹھے ہوئے ہیںآج یقینی طورپر دھرنیوں نے اپنے کاررواں میں ملک کے 19 کروڑ عوام کو بھی ذہنی طورپر شامل کرلیاہے۔

اَب اِس کے سب منتظرہیں کہ اَب کب ہمارے مُلک میں بھی معاشرتی تغیرات کے بعد حقیقی معنوں میںانقلاب اور آزادی کی کرنیں نمودارہوں گیں اور کب ہم بھی اپنے حکمرانوں کی مفادپرستانہ جمہوریت کی قیدسے آزاد ہوکر حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے فیضیاب ہوں گے اور کب ہم اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی نام نہاد جمہوریت کی آڑ لے کر اقتدار پر زبردستی قابض ہونے والی خاندانی بادشاہت سے جان چھڑاکر ملک میںصاف و شفاف حکمرانی اور اقتدار کا منہ دیکھیں گے…؟

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com