تحریر : پروفیسر رفعت مظہر نواز لیگ کے پہلوان وزیراعظم کے مشیر امیر مقام نے کہا کہ کپتان کے تین مشاغل ہیں۔ کنٹینر پر چڑھنا’ تقریر کرنا اور دلہن ڈھونڈنا۔ سوال مگر یہ ہے کہ ان تینوں میں سے کون سی چیز غیرشرعی’ غیراسلامی یا غیرجمہوری ہے؟ کنٹینر پر چڑھنا اور تقریر کرنا کپتان صاحب کا جمہوری حق ہے اور دلہن ڈھونڈنا اسلامی حق۔ کہا جا سکتا ہے کہ ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں فی الحال اپنی سرگرمیاں معطل کر دینی چاہئیں لیکن اگر وہ اُنہیں جاری رکھنے پر بضد ہیں تو انہیں آئین روک سکتا ہے نہ قانون۔ البتہ انہیں یہ مشورہ ضرور دیا جا سکتا ہے کہ وہ غیر پارلیمانی زبان سے گریز کریں کہ یہی اُن کے حق میں بہتر ہے۔ انہوں نے اپنے جلسے’ جلوسوں اور دھرنوںمیں جو میوزیکل کنسرٹ اور ”ہلاگلا” شروع کیا ہے’ وہ ہماری پارلیمانی سیاست کا حصہ نہیں لیکن اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہی وہ میدانِ سیاست میں ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے کا بھی حق ہے۔ ویسے تو آج کل خاں صاحب کا مزاج کافی دھیما ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں کیوں اور کیسے؟ بیاہ اور طلاق خالصتاً شرعی اور ذاتی مسئلہ ہے۔
اول تو کسی کے گھریلو معاملات کو زیربحث لانے کی دین ہی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ دوسرے سیاست میں ذاتیات کو شامل کرنا کسی بھی صورت میں مستحسن نہیں۔ ہم اگرسیاست میں گھریلو معاملات لے آئیں گے تو صرف جگ ہنسائی ہی ہو گی اور کچھ نہیں۔ کپتان صاحب نے کوئی غیرشرعی کام تو نہیں کیا کہ اُن پر تعزیر کااطلاق ہو یا مذاق اُڑایاجائے۔امیر مقام کہتے ہیں ”وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے عمران خاں کو ایسا شیمپو دیا ہے جس سی پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے لوگ دُھل کر پاک ہو جاتے ہیں۔” جی ہاں! بالکل اُسی طرح دُھل کر پاک ہو جاتے ہیں جیسے امیر مقام خود ”آب زم زم ” میں غسل کرکے ”پوتر” ہو گئے۔ ان کی وہ ساری آلائشیں دُھل گئیں جو پرویز مشرف کے پہلو میں بیٹھ کر اُن کے پاکیزہ بدن سے چمٹ چکی تھیں۔ حیرت ہے کہ امیر مقام اتنے زیادہ پاکیزہ ہو گئے کہ اس شخص کے پہلو میں براجمان ہو گئے جسے پرویز مشرف نے جلاوطن کیا تھا۔ مزید حیرت یہ کہ جلاوطنی کا دکھ سہنے والے نے اُسے قبول بھی کر لیا۔ اگر امیر مقام کوگلے لگایا جا سکتا ہے تو بے چارے لال حویلی والے نے کیا جرم کیا تھا؟ اُسے بھی معاف کر دیتے کہ اُس نے تو ”منتوں ترلوں” سے بہت کام لیا تھا۔
محترم امیر مقام سے یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ اگر وہ ”مشاغل” گنوانے بیٹھے ہی ہیں تو پھر لگے ہاتھوں اپنے سابق باس پرویز مشرف کے مشاغل بھی بتا دیں کہ آپ تو محرمِ درونِ خانہ تھے۔ اگر انہیں بتاتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ اُن کے ”باس” کے مشاغل طبلہ سارنگی بجانا’ نشے میں دھت ہو کرڈانس کرنا’ پاکستانیوں کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کرنا’ اُن کے خون سے ہاتھ رنگ کر مکے لہرانا اور امیر مقام جیسے لوگوں کو ریوالور تحفے میں دینا تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ امیر مقام صاحب اپنے سابق ”بِگ باس” کے ساتھ مل کر ”ٹھُمکے” بھی لگاتے رہے یا نہیں’ لیکن پرویز مشروف کو تو ٹی وی پر ٹھمکے لگاتے ہم نے کئی بار دیکھا۔ ویسے تو ہمارے سابق کمانڈو ”بیمار شمار” تھے’ بلکہ اتنے بیمار کہ اُن سے ہلا تک نہیں جاتا تھا’ لیکن جونہی وہ ”آزاد” فضائوں میں پہنچے’ پھر سے جوان ہو کر ٹھمکے لگانے لگے۔ یہی نہیں بلکہ آج کل تو وہ ایم کیو ایم پر قبضہ جمانے کے چکر میں بھی ہیں۔
Amir Muqam
امیر مقام یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ وہی ”کمانڈو” ہیں جنہوں نے امریکہ کی ایک کال پر گھٹنے ٹیک دیئے اور امریکہ کے قدموں میں وہ کچھ بھی رکھ دیا جس کا اُس نے مطالبہ بھی نہیں کیاتھا۔ یہ وہی صاحب ہیںجنہوں نے ایم کیو ایم کو ”ہلاشیری” دے کر کراچی خونم خون کروایا۔ اُس دور میں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر رہی اور پورا کراچی خوف کی فضا ء میں زندگی بسر کرتا رہا۔ ہم تو صرف اتنا عرض کر سکتے ہیں کہ دوسروں پر کیچڑ اُچھالنے سے پہلے اپنی ”تردامنی” کو بھی مدنظر رکھ لینا چاہیے۔ اُن سے دست بستہ یہ راز کی بات پوچھنے میں کوئی حرج نہیں کہ نواز لیگ کوداغِ مفارقت دینے کا کب تک ارادہ ہے؟ خیر یہ تو ہمیں بھی یقین ہے کہ جب تک نواز لیگ کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہے’ وہ میاں برادران کا ساتھ چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے’ لیکن یہ بھی یقین کہ امیر مقام کی نواز لیگ کے ساتھ الفت و محبت بس اتنی دیر تک ہی ہے جب تک وہ اونچے ایوانوں کی باسی ہے۔ اس کے بعد”تُو کون میں کون۔” یوں تو ہر جماعت میں ہی ایسے سیاسی ”بزرجمہر” موجود ہیں جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوئے ہیں لیکن تحریک انصاف تو بنی ہی ایسے بزرجمہروں کے ”اَکٹھ” سے ہے۔ شاید یہ بھی ”جمہوریت کا حسن” ہی ہو گا۔
ہماری ”بی بی جمہوریت” کا وتیرہ ہی یہی ہے اور ہم جو جمہوری پودے لگارہے ہیں’ اُن کا خمیر یا تو ”لوٹا کریسی” سے اُٹھا ہے یا پھر اُنہیں سیاست وراثت میں مِلتی ہے۔ آجکل بلاول زرداری اپنے والدین اور نانا کی وراثت سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب تو اُنہوں نے بینظیر بھٹو کی طرح ہاتھ میں تسبیح بھی پکڑ لی ہے ۔ یہ الگ بات کہ تسبیح کے ساتھ ساتھ اُن کی غیر ملکی خواتین کے ساتھ سیلفیاں بھی چلتی رہتی ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا پاکستان کی تقدیر میں غیر ملکی تہذیب و تمدن میں پلے بڑھے یا ”لوٹے” ہی رہ گئے ہیں؟۔ کیا یہ دھرتی اتنی بانجھ ہو چکی کہ اپنی مٹّی سے ایک رہنماء بھی پیدا نہیں کر سکتی ۔ایک شخص جو اپنے آپ کو ”میڈ اِن پاکستان” کہتا ہے ، اُس سے کبھی ہم حکومت چھین لیتے ہیں اور کبھی جَلاوطن کر دیتے ہیں لیکن یہ خرابی تو اُس میں بھی کہ اب وہ اپنی اگلی نَسل کو اپنی سیاسی وراثت منتقل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
قصور مگر اِن رہنماؤں کا نہیں ،ہمارا اپنا ہے کہ چناؤ کے وقت ہم بھی اپنی ضرورتوں کے اسیر ہو کر ایسے رہنماء منتخب کرتے ہیں جنہیں سب سے پہلے اپنی ذات ہی نظر آتی ہے ، باقی سب کچھ بعد میں۔ بلاول زرداری کو اُس کے باپ نے بھٹو بنانے کی کوشش محض اِس لیے کی کہ لوگوں کی قابلِ ذکر تعداد آج بھی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو سے پیار کرتی ہے ورنہ کبھی کوئی اپنی نسل بھی تبدیل کرتا ہے؟۔ ایسے لوگوں کو تو ”دوغلا” کہتے ہیں اور دوغلا ہمارے معاشرے میں گالی ہے۔ آجکل بلاول پنجاب کے دورے پر ہیںاور نعرہ وہی گھِسا پِٹّا ”’روٹی ،کپڑا اور مکان” جو نہ اُس کا نانا دے سکا ، نہ ماںاور تحقیق کہ بلاول تو ہرگز نہیں دے سکے گا کیونکہ پیپلز پارٹی کم از کم پنجاب کی حد تک تو قصّۂ پارینہ بن چکی ۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم اپنے رہنماؤں کے کھوکھلے نعروں کے ہاتھوں بیوقوف بنتے رہیں گے۔