آج کا سوال اور ڈیڈ اینڈ

Imran and Supreme Court

Imran and Supreme Court

تحریر: چوہدری غلام غوث
پاکستان کی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ ہر دس پندرہ روز بعد ایک نیا سوال جنم لے لیتا ہے اور یہ سوال اس وقت تک پوچھا اور دہرایا جاتا رہتا ہے جب تک کوئی نیا سنگین اور مشکل سوال اس کی جگہ نہیں لے لیتا ـ اس کا ر خیر میں ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا حصہ بقدر جثہ سے بھی زیادہ متحرک اور فرض شناس نظر آتا ہے پچھلے دنوں 2 ـ نومبر سے پہلے لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کیا عمران خان جس نے اپنے 2 نومبر کے دھرنے کو ڈو اینڈ ڈائی اور قطعی حتمی دھرنا قرار دے دیا ہے اس کے نتیجے میں کیا ہونے والا ہے اور کیا حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا جائے گا آرمی اقتدار سنبھال لے گی یا قومی حکومت بنے گی جبکہ دو نومبر گزرنے کے بعد نیا سوال سامنے آ گیا کہ کیا سپریم کورٹ پانامہ لیکس کے معاملے پر وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے دے گی او رکیا یہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قائم رہے گی یا نہیں او ریہ سوال پاکستانی سیاست میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے جاری ہونے تک شدت سے زبان زد عام رہے گا جبکہ حالیہ دنوں میں ہی متنازعہ خبر ڈان لیکس پر مختلف سوالات جنم لیتے رہے۔

جس کے نتیجے میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کو مستعفی ہونا پڑا اب اس خبر کی تہہ تک جانے اور مکمل حقائق جاننے کے لئے قائم کی گئی کمیٹی کے حتمی فیصلے تک سوال جنم لیتے رہیں گے اور اگر اس کمیٹی نے خبر کی رازداری کا پردہ چاک کرنے کا ذمہ دار نواز شریف اور ان کے رفقائے کار کو قرار دے دیا تو پھر یہ سوال جنم لے گا کہ آرمی نواز شریف کو گھر بھیج دے گی یا نہیں اور حکومت ختم ہو گی یا نہیں اس کے علاوہ پاکستانی سیاست میں ان دنوں سب سے زیادہ جو سوال گفتگو کا محور ہے وہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے متعلق ہے آیا توسیع ہو گی یا نہیں اگر نہیں تو اگلا آرمی چیف کون ہو گا جبکہ تازہ ترین سوال جو کہ نومولود بچے کی طرح پیدا ہوا ہے کہ قطر کے شہزادے جاسم بن حمد کاپانامہ لیکس کے بارے میں جو خط سپریم کورٹ میں پیش ہوا ہے وہ شریف فیملی کے حق میں جائے گا یا ان کیلئے مزید پریشانی کا سبب بنے گا وغیرہ وغیرہ ـ

Question And Answer

Question And Answer

قارئین ایک سوال کا جواب آتا ہے تو دوسرا سوال کھڑا ہو جاتا ہے تذبذب اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت میں قوم خود ریٹنگ کا شکار نظر آتی ہے ان سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ میاں محمد نواز شریف کے عنان حکومت سنبھالتے ہی شروع ہو گیا تھا جو اب تک پوری آب و تاب سے اپنی معراج پر ہے ـمجھے جب بھی کوئی سوال پوچھتا ہے تو مجھے سرد جنگ کے دور کا لطیفہ یاد آ جاتا ہے ـیہ لطیفہ 1960ء کی دھائی میں ایجاد ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس لطیفے نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی تھی ـ یہ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ٹرین کے کسی ڈبے میں چار لوگ بیٹھے سفر کر رہے تھے ایک طرف امریکی صدر جان ایف کینڈی بیٹھا تھا اس کے سامنے سوویت یونین روس کا وزیر اعظم خروشچیف تھا اور کے ساتھ مدر آف اسرائیل آئرن لیڈی گولڈا مائر بیٹھی تھی جبکہ کینڈی کے ساتھ بالی ووڈ کی شہرہ آفاق خوبرو اداکارہ الزبتھ ٹیلر براجمان تھی یہ چاروں شخصیات عالمی مسائل پر محو گفتگو تھیں۔

اس دوران ٹرین ایک ٹنل میں داخل ہو جاتی ہے اور ڈبے میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا جاتا ہے اندھیرے میں چومنے کی آواز آتی ہے اور ساتھ ہی ایک زناٹے دار تھپڑ گونجتا ہے ـٹنل ختم ہو جاتی ہے تو روشنی ہونے پر ڈبے کے مسافر دیکھتے ہیں کہ جان ایف کینڈی نے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور اس کا گال تھپڑ سے لال سرخ ہو گیا ہے یہ دیکھ کر ڈبے کے مسافر کیا سوچتے ہیں یہ لطیفہ ان کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے اس لمحے صدر کینڈی سوچتا ہے خروشچیف نے اندھیرے کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے الزبتھ ٹیلر کو ” کِس” کیا خود سائید پر ہو گیااور الزبتھ ٹیلرنے تھپڑ مجھے رسید کر دیا الزبتھ ٹیلر کینڈی کا سرخ گال دیکھ کر سوچتی ہے جان ایف کینڈی نے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گولڈا مائر کو کس کیا اور گولڈا مائر نے اس جسارت پر تھپڑ دے مارا جبکہ کولڈا مائر اس وقت سوچ رہی ہوتی ہے کینڈی کس قدر گھٹیا انسان ہے اس نے الزبتھ ٹیلر کو کس کیا اور دنیا کی اتنی مشہور شخصیات کے سامنے خود کو بے عزت کروا لیا جبکہ خروشچیف اس لمحے سوچتا ہے کہ آدھ گھنٹے بعد ایک اور ٹنل آئے گی ڈبے میں اندھیرا چھا جائے گا وہ منہ سے چومنے کی نقلی آواز نکالے گا اور ایک بار پھر کینڈی کے منہ پر زور دار تھپڑ مارے گا۔

قارئین کرام ! یہ لطیفہ محض ایک لطیفہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک بہت بڑا سیاسی فلسفہ ہے اور اگر آپ دنیا بھر کے سیاسی مسائل کو اس فلسفے کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھیں تو آپ کو محسوس ہو گا دنیا کے ہر ملک میں کوئی نہ کوئی سیاستدان کسی نہ کسی ٹنل کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور منہ سے چومنے کی جعلی آواز نکالتا ہے اور ساتھ ہی سیاسی مخالف کے منہ پر تھپڑ دے مارتا ہے ـ جس کی وجہ سے وہ بیچارہ بدنام ہو جاتا ہے اور سیاسی گاڑی اپنا سفر جاری رکھتی ہے تو تھوڑی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی ٹنل آ جاتی ہے تو اس کے بعد تمام سیاسی مسافر ایک دوسرے کے بارے میں غلط شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں او ریہ سلسلہ متواتر جاری رہتا ہے ـحالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے دونوں طرف سے بہی خواہ میدان میں آتے ہیں ـ ڈپلومیسی کا کوئی نہ کوئی پچھلا دروازہ کھولا جاتا ہے مذاکرات اور مفاہمت کا نیا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے اور اس دوران ایک بار پھر ٹنل آ جاتی ہے اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں او ریہ سلسلہ بے جا دراز ہونے سے ایک سیاسی کھیل کا روپ دھار جاتا ہے جس کی جیت اور ہار کا نتیجہ دورس اثرات چھوڑتا ہے۔

Politics

Politics

ہمارا ملک بھی اس سیاسی کھیل کے نتیجے میں اس وقت گھمبیر صورتحال میں پھنسا ہوا ہے ـ ملک معاشی ، سیاسی ، جغرافیائی ، لسانی اور دہشت گردی کے شدید مسائل کا شکار ہے ـبھارت اور امریکہ کی طرف سے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ نئے امریکی صدر کے آنے کے بعد اس میں مزید شدت آ جائے گی ملک سے پانی ، بجلی ، سوئی گیس ،روزگار اور امن و امان غائب ہو چکا ہے لہذا ان حالات میں اگر کوئی بڑا سیاسی بحران جنم لیتا ہے تو ملک ایک مرتبہ پھر اعشاریہ صفر پر آ جائے گا جس کے بعد بانس اور بانسری دونوں فارغ ہو جائیں گے ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی بڑی بڑی سیاسی تبدیلیوں کا ادراک کیا جائے اور ملک کو اس بحرانی صوتحال سے نکالنے کے لئے ملک کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیاں آپس میں مل بیٹھیں ملک کی خاطر نواز شریف ، آصف زرداری اور عمران خان ایک دوسرے کے ساتھی بن جائیں تینوں مل کر اس ملک سے دہشت گردی ،بے روزگاری ،انارکی بے چینی ، معاشی مشکلات اور کرپشن کا خاتمہ کریںـبجلی ، پانی ،گیس ،روزگار ، تعلیم ،صحت ، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں ملک کو قرضوں سے نجات دلائیں امن اور بھائی چارے کو فروغ دیں افراد کو متحد کر کے ایک قوم بنائیں اور اس قوم میں وسائل پر انحصار اور خودداری جیسے وصف پیدا کریں سمت کے تعین کے بغیر سیاست کرنے کی روش ترک کر دیں جس کی عکاسی شاعر نے کیا خوب انداز میں کی ہے
میرے ملک کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہے طوائف تماش بینوں میں

یہ ملک 20 کروڑ پاکستانیوں کا ملک ہے اس کے مالک ہم سب اور ہماری آنے والی نسلیں ہیں ـ آئیے مل بیٹھ کر اس ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بنانے کا پختہ عزم کریں اس ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں اور اس قوم کو دنیا کی عظیم قوموں کی صف میں کھڑا کرنے کی سعی کریں اپنے اپنے مفادات کو چھوڑ کر ملکی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہوئے عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھیں ورنہ اگر راستے میں کوئی نئی ٹنل نہ آئی اور کسی نے اندھیرے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی اور حالات جوں کے توں آگے بڑھتے رہے تو یہ سیاسی ٹرین ایسی پٹری پر چڑھ جائے گی جس کے آخر میں دلدل اور سرنگیں ہی سرنگیں ہوں گی اور باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا اور یہ ڈیڈ اینڈ ہو گا۔

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر: چوہدری غلام غوث