اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رواں ہفتے کے اوائل میں ہونے والے مہلک خودکش بم حملے میں 70 سے زائد ہلاکتوں کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری نے تو اس حملے کا الزام پڑوسی ملک بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی “را” پر عائد کیا تھا۔
لیکن ملک میں رواں ہفتے کے دوران پارلیمان میں ہونے والی بحث کے دوران بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قانون ساز محمود خان اچکزئی اور بعض دیگر قانون سازوں نے کہا تھا کہ اس حملے کا الزام محض کسی دوسرے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی پر عائد کرنے سے معاملہ حل نہیں ہو گا۔
اُن کی طرف سے پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کو بھی تنیقد کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ اُنھیں بھی کچھ ذمہ داری لینی چاہیئے۔ تاہم جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں جب وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا سے کوئٹہ دھماکے میں غیر ملکی عناصر کے ملوث ہونے سے متعلق سوال پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
نفیس ذکریا نے کہا کہ پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں مبینہ طور پر بھارت کے ملوث ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی طرف سے تو اس بارے میں فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن رواں ہفتے بھارت نے نئی دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کر کے پاکستان پر سرحد پار سے دراندازی کا الزام لگایا تھا۔
بھارت کا کہنا تھا کہ جولائی میں بھارتی کشمیر سے پکڑے گئے بہادر علی نامی ایک مشتبہ دہشت گرد کا تعلق پاکستان سے ہے اور اس نے پاکستان میں لشکر طیبہ کے کیمپوں سے تربیت حاصل کی تھی۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کے دعوے کی سختی سے تردید کی گئی تھی اور جمعرات کو بھی پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا کہ پاکستان لائن آف کنٹرول پر کسی بھی طرح کی دراندازی میں ملوث نہیں۔
بھارت اس سے قبل بھی اپنے ہاں ہونے والے دہشت گرد واقعات کا الزام پاکستان میں موجود تنظیموں پر عائد کرنے کے علاوہ یہ دعویٰ بھی کرتا آیا ہے کہ ان کے پیچھے پاکستان کی خفیہ انٹیلی جنس ایجنسی “آئی ایس آئی” کا ہاتھ ہے۔
لیکن پاکستان ان دعوؤں کو مسترد کرتا رہا ہے اور گزشتہ سال سے اس نے بھی ملک میں عدم استحکام پھیلانے کی تخریبی کارروائیوں کا الزام بھارتی خفیہ ایجنسی “را” پر عائد کرنا شروع کیا۔
رواں سال کے اوائل میں پاکستانی حکام نے ایک مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادوو کو بلوچستان سے گرفتار کیا تھا اور اس کا اعترافی بیان بھی ذرائع ابلاغ میں نشر کیا۔ تاہم بھارت نے کلبھوشن کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی دعوؤں کو مسترد کیا تھا۔
اُدھر افغان میڈیا کے مطابق افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے جمعرات کو ایک بیان پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ کوئٹہ میں حملہ وہاں کے ملک کی اپنی پالیسی کا نتیجہ ہے۔
واضح رہے کہ روایتی حریف بھارت کے علاوہ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے اپنے پڑوسی ملک افغانستان سے بھی سفارتی تعلقات میں تناؤ آیا ہے۔ افغانستان کی طرف سے تواتر کے ساتھ پاکستان پر یہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں پاکستان دہشت گردوں میں تفریق کرتا ہے اور افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث عناصر بھی پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں۔
لیکن اسلام آباد ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بلا تفریق تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہے اور پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے۔ پاکستان نا صرف ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے بلکہ اُس کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات کسی صورت بھی خطے کے امن کے لیے سود مند نہیں۔