عظیم قائد کا گھر بھی آگ کے شعلوں کی نظر ہو گیا، یوں تو پورے پاکستان میں ہی دہشت گردی، قتل و غارت، لوٹ مار اور جلائو گھرائو کا بازار گرم ہے جس کی وجہ سے محب وطن پاکستانی اس تمام صورتحال سے پریشان اور نالاں ہے۔ ایک طرف اپنوں کی لگائی ہوئی آگ ہے تو دوسری طرف دشمن بھی گھات لگائے بیٹھا ہے، کیا ہم اندرونی طور پر اس قدر کمزور ہو گئے ہیں کہ اپنے پیارے قائد کے گھر کو بھی نہ بچا سکے۔ آج یقینا قائد کی روح بھی تڑپ اٹھی ہو گی۔
زیارت کوئٹہ کا وہ تاریخی مقام ہے جہاں قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری لمحات گزارے تھے، اس تاریخی گھر میں قائداعظم کا سامان بھی موجود تھا، وہ بھی شعلوں کی نظر ہو گیا۔ یہ صرف ایک مکان نہیں تھا ،یہ ایک تاریخ تھی،ایک یادگار تھی، جسے دشمنوں نے پل بھر میں خاک میں ملا دیا۔ زندہ، باشعور اور خودار قومیں اپنی تاریخ اور تاریخی ورثہ کی دل و جان سے حفاظت کیا کرتیں ہیں۔ ہمیں اپنی تاریخ کو بھولنا نہیں چاہیے۔
قائد اعظم کو باوجود شدید ٹی بی ہونے کے اس دور افتادہ مقام پر رکھا گیا جو کوئٹہ سے 120 کلو میٹردور ہے، جہاں ڈاکٹری سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں، اور پھر جب آپ کی طبعیت بحال نہ ہوئی تو اپ کو جس ایمبولینس میں لے جایا گیا وہ ایک سنسان مقام پر آکر خراب ہو گئی ،شدید گرمی میںآپ کی صحت پر اور بھی برا ثر پڑا،یوں راستے میں ہی آپ کا انتقال ہو گیا۔ اور پھر آج جب آپ کی یادگار پر یوں حملہ ہوا تو فائیر برگیڈ کی گاڑیاں 3 گھنٹے تا خیر سے پہنچیں۔ جس سے سب کچھ جل کر خاکستر ہو گیا۔
یہ افسوس ناک واقعہ ان حکمرانوں کے منہ پر ایک طماچہ ہے ،جن کو ہر لمحہ اپنی سیکورٹی کی فکر رہتی ہے، ہزاروں کی تعداد میں سیکورٹی اہل کار ان کے آگے پیچھے بلٹ پروف جیکٹس اور بلٹ پروف گاڑیوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔ جب کہیں جاتے ہیں توگاڑیوں کی ایک طویل قطارہوتی ہے اور یہ دنیا و مافیہا سے بے نیازاپنی جاہ و جلال کو قائم رکھنے کی فکر میں ہی رہتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملکی حالات کے پیش نظراس تاریخی مقام کی حفاظت کے لئے کیوں خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے گئے۔
Sad
کتنی آسانی سے دشمن نے اس مقام کو اپنا نشانہ بنایا ،یہ کون تھے کہاں سے آئے تھے آخر ان کا مقصد کیا تھا ایک بات تو واضح ہے کہ جنہوں نے بھی ایسی قبیہہ حرکت کی ہے وہ ہرگز ہرگز محب وطن لوگ نہیں ہیں، اور یہ ہماری ہی صفوں میں چھپے وہ غدار لوگ ہیں جو نہ ملک کے ساتھ مخلص ہیں نہ میرے وطن کے لوگوں کے ساتھ اور نہ ہی اپنے ساتھ۔ ملک دشمنی کی یہ آخری حد ہے جو ان دشمنوں نے پار کی ہے۔ ہر ایک محب وطن پاکستانی کا دل آج دکھی ہے اور وہ خون کے آنسو رو رہا ہے۔
ہر سو سوگ کی سی کیفیت ہے غم کے بادل چھائے ہوئے ہیں ان لوگوں نے تو میرے وطن کے معصوم بے گناہ لوگوں سے لے کر میرے قائد کو بھی نہیں بخشا ہے۔ ان ملک دشمن عناصر نے میرے وطن کے لوگوں کا سکھ چین آرام امن سب کچھ چھین لیا ہے ، ،یہ لوگ دند ناتے پھرتے ہیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں اور مضموم مقاصد کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں ان کو کوئی پکڑنے والا نہیں ہے، اس لئے بھی کہ ان کی سرپرستی کرنے واے بھی اسی ملک میں موجود ہیں۔
عدالیتں بھی ان کو باعزت بری کر دیتی ہیں آج تک کسی دہشت گرد کو موت کی سزا نہیں ملی۔ تبھی تو ان کا حوصلہ بڑھتا ہے، جب عدالتوں سے ہی انصاف نہیں ملے گا توآخر پھر کس سے منصفی چاہیں یہ ایک قومی سانحہ تھا ،ہماری تاریخ اور عظیم قومی ورثہ انتقام ،نفرت،اور مفادات کی نظر ہو گیا۔ افسوس کہ کسی قدآور سیاسی شخصیت کو اتنی بھی فرصت نہ ملی کہ فوری طور پر اس جگہ کا دورہ کرتا ،ویسے تو یہ پوری دنیا گھوم آتے ہیں یہ ہی وہ وقت تھا کہ جب اداس غمزدہ قوم کی ڈھارس بندھائی جاتی، دہشت گردوں کے مقاصد یقینا اس طر ح تو پورے نہیں ہوں گے۔
Blast Women’s University
البتہ عوام کے دلوں میں ایسے واقعات و حادثات سے ضرورزخم لگا ئے جاتے ہیں۔ پاکستانی قوم تو جیسے خوشی اور خوشخبری سننے کو ترس گئی ہے، ابھی دکھ تکلیف اور اذیت سے لگے زخم کے گھائو نہیں بھرتے کہ دوسرا زخم تیار ہو جاتا ہے۔ قائد کے گھر کو راکٹ حملوں سے تباہ کرنے کی خبر نے تو جیسے ان پہلے سے لگے زخموں پرنمک پاشی کا کام کیا ہے ۔اور وہی ہوا ظالموں اور بزدلوں نے نہتی اور کمزور طالبات کو بھی نہیں بخشا، ویمن یونیورسٹی کی بس میں دھماکہ ہوا اور پھر اس کے بعد بولان میڈیکل کمپلیکس میں، گویا ایک کے بعد ایک دھماکہ کہ الامان الحفیظ۔
کوئٹہ کے بہادر ڈپٹی کیمشنز جناب عبدالمنصور خان صاحب کو ہسپتال میں بم دھماکوں اور گولیوں کے بیچ شہید کر دیا گیا ،کوئٹہ کی تاریخ کااس قسم کا یہ دوسرا واقعہ ہے کہ جب ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا ہے۔اس سے قبل 16 اپریل 2010 میں ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی حکومت کو چیلنج کرنے کے لئے ایسے حملے کئے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کی بہت سی باغی تنظیمیں اور وہ لوگ اس سارے عمل کے پیچھے ہیں جو کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔
اس لئے نہ صرف انہوں نے ایسے حملے کئے بلکہ پاکستان کا قومی پرچم اتارنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔ دہشت گردوں کے جو بھی مقاصد ہوں ،حکومت سے ان کے اختلافات ہوں، اقتدار کی جنگ ہو، مطالبات منوانے ہوں، پسند و نا پسند کا مسئلہ ہو۔ نقصان تو پرامن اور معصوم نہتے عوام کا ہوتا ہے ،ان پے درپے خوفناک قابلِ مذمت واقعات نے پوری پاکستانی قوم کو پریشانی دکھ اور اذیت میں مبتلا کر دیا ہے اب تو اللہ تعالی ہی ہم پر اپنا رحم اور فضل فرمائے آمین۔