کوئٹہ (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع پولیس ٹریننگ کالج پر شدت پسندوں کے حملے میں درجنوں اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ملک کی اعلی ترین سول اور فوجی قیادت کوئٹہ میں موجود ہے اور ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کی۔
پیر اور منگل کی درمیانی شب ہونے والے اس حملے میں پولیس کے 60 اور ایک فوجی اہلکار ہلاک جبکہ 120 سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
پولیس حکام نے زخمیوں کی تعداد 124 بتائی ہے جن میں ریسکیو آپریشن میں شامل چار فوجی اور دو ایف سی کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے 20 کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔
حملے میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی اجتماعی نماز جنازہ کوئٹہ کینٹ میں واقع موسیٰ سٹیڈیم میں ادا کی گئی جس میں وزیراعظم اور آرمی چیف نے بھی شرکت کی۔
اس حملے کی ذمہ داری عالمی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے قبول کی ہے۔ حملے کے اگلے دن وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کوئٹہ پہنچے جہاں انھوں نے زخمیوں کی عیادت کی ہے۔
اس وقت وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں گورنر ہاؤس میں اعلیٰ سطح کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں فوج کے سربراہ، آئی ایس آئی کے ڈی جی، وفاقی و صوبائی وزیر داخلہ اور متعلقہ اعلیٰ سول و فوجی حکام نے شرکت کی۔
جنرل راحیل شریف نے منگل کی صبح کوئٹہ پہنچنے کے بعد حملے میں ہلاک ہونے والے فوجی اہلکار کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی اور ریسکیو آپریشن میں شامل فوج اور ایف سی کے اہلکاروں سے ملاقات بھی کی۔
انھوں نے کیپٹن روح اللہ کے لیے بعد از شہادت تمغہ جرات کا اعلان بھی کیا ہے۔ کیپٹن روح اللہ کے علاوہ اس آپریشن میں زخمی ہونے والے نائب صوبیدار محمد علی کو بھی تمغۂ بسالت دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
جنرل راحیل کی آمد کے کچھ دیر بعد وزیراعظم نواز شریف بھی کوئٹہ پہنچے ہیں اور انھوں نے جنرل راحیل کے ہمراہ ہپستال میں زیر علاج زخمی اہلکاروں کی عیادت کی۔
میڈیا پلیئر کے بغیر آگے جائیںمیڈیا پلیئر کے لیے مددمیڈیا پلیئر سے باہر۔ واپس جانے کے لیے ’enter کا بٹن دبائیں اور جاری رکھنے کے لیے tab دبائیں۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے تمام سرکاری مصروفیات منسوخ کر کے کوئٹہ جانے کا فیصلہ کیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم کوئٹہ میں حملے کے فوراً بعد آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن نے میڈیا کو بتایا تھا کہ حملہ آوروں کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی العالمی سے ہے۔
خیال رہے کہ پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ دو ماہ قبل ایک پریس کانفرنس میں یہ اعتراف کیا تھا کہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے پاکستان میں جگہ بنانے کی کوشش کی تھی اور ملک سے تنظیم کے خاتمے کا کام جاری ہے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب ملک بھر خصوصاً بلوچستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کی وجہ سے سکیورٹی کے مزید سخت انتظامات کیے گئے ہیں تاہم بلوچستان کی حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ پولیس سینٹر پر حفاظتی انتظامات مثالی نہیں تھے۔
امریکہ نے بھی کوئٹہ کے پولیس ٹرینگ سینٹر پر شدت پسندوں کے حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ مشکل کے اس وقت میں وہ پاکستان کی عوام اور حکومت کے ساتھ ہیں۔
پاکستان میں ماضی میں بھی پولیس کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ مارچ سنہ 2009 میں لاہور کے نزدیک مناواں میں پولیس کے تربیتی مرکز پر شدت پسندوں کے حملے میں آٹھ پولیس اہلکار ہلاک اور سو کے قریب زخمی ہوئے تھے۔