تحریر : سید توقیر زیدی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے گزشتہ روز کلرسیداں میں نومنتخب بلدیاتی نمائندوں سے ملاقات کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے اجلاس ہوا ہے۔ اپوزیشن بھی سوچ بچار کر رہی ہے اور ان سے بھی تجاویز مانگی گئی ہیں۔ کوشش اور مقصود یہ ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے تیز ترین عدالتی نظام (فاسٹ ٹرائل کورٹ سسٹم) متعارف کرایا جائے تاکہ دہشت گردی کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ میں نے تقریر میں کسی عسکریت پسند کالعدم تنظیم یا فرد کو رعایت نہیں دی۔ کچھ لوگوں نے اپنے مطلب نکال لئے (حکومت کے نزدیک) دہشت گردوں کے لیے کسی قسم کی رعایت کی گنجائش نہیں۔ اْنہوں نے اعتراض اور تنقید کرنے والوں سے کہا کہ دہشت گردی اور فقہی اختلافات کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں میں فرق ہونا چاہیے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو اْنہیں بے دست و پا کرنے کے لیے بیس نکاتی ایکشن پلان وجود میں آیا۔ ساتھ ہی یہ بھی محسوس کیا گیا کہ جو دہشت گرد پکڑے جائیں’ اْنہیں کسی قاعدے قانون کے تحت جلد از جلد سزا ملنی چاہیے۔ اگرچہ مروجہ عدالتی نظام میں ایسی کوئی خامی نہیں کہ کسی بے گناہ کو لٹکا دیا جائے’ یا مجرم بچ نکلے۔ تاہم عدالتوں کا کام کرنے کا انداز کچھ اس طرح ہے کہ بعض اوقات ملزم کو مجرم ثابت کرنے کی راہ میں قانون شہادت اور وکلا کا زور بیان آڑے آتا ہے۔اسی طرح بعض اوقات فیصلہ ہونے میں لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ جمہوری ملک میں فوجی عدالتوں کا کوئی تصور نہیں’ آئین’ انصاف کے اس نظام سے آگاہ نہیں لیکن ان سب چیزوں کے باوصف’ محسوس کیا گیا کہ دہشت گردی کے مقدمات کے فوری فیصلوں کے لیے مروجہ عدالتی نظام سے ہٹنا پڑے گا چنانچہ اپوزیشن سے مشاورت کے بعد’ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین میں ترامیم لانا پڑی۔ 16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر دہشت گرد حملہ کے بعد’ 6 جنوری 2015ء کو آئین میں 21 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 2015ء (ترمیمی) بل کی پارلیمنٹ سے متفقہ منظوری کے بعد’ فوجی عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیئے گئے۔ فوجی عدالتوں نے فروری 2015ء میں کام کا آغاز کیا۔
Military Courts
پہلے مْجرم کو اْسی سال اپریل میں جبکہ آخری کو 28 دسمبر 2016ء کو سزا سنائی گئی۔ فوجی عدالتوں کے قیام کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا؛ تاہم یہ پٹیشن خارج کر دی گئی۔ یوں ان عدالتوںکی پشت پر آئین’ پارلیمنٹ اور عدالت عظمیٰ کی تائید جمع ہو گئی تھی ان عدالتوں پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ٹرائل کے دوران شاید انصاف کے تقاضے پورے نہ ہو سکیں۔ دو سال کے دوران فوجی عدالتوں کو 274 کیس بھجوائے گئے’ 161 مجرموں کو سزائے موت اور 113 کو مختلف میعاد کی سزائیں سنائی گئیں۔ سبھی مقدمات میں قانون و انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے۔ مجرموں کو قانونی معاونت بھی حاصل تھی۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق بھی۔ چند دن پہلے فوجی عدالتوں کے قیام کی آئینی مدت ختم ہو گئی لیکن وہ ضرورتیں اور تقاضے ہنوز پورے نہیں ہوئے’ جن کے لیے یہ عدالتیں تشکیل پائی تھیں۔ بہتر ہوتا کہ ان عدالتوں کی آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے یہ طے پا جاتا کہ ملٹری کورٹس کو رکھنا ہے یا نہیں۔ جب ان کی توسیع کا سوال اْٹھا تو اپوزیشن کی طرف سے مخالفت کی گئی۔ اسی طرح حکومت مخالف سیاسی حلقوں کی طرف سے الزام عائد کیا گیا کہ حکومت’ بعض گروہوں کو دہشت گرد نہیں سمجھتی اور اْن کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔
یہ وہی الزام ہے’ جس کی طرف وزیر داخلہ نے اشارہ کیا کہ فقہی اختلافات پر بننے والی تنظیموں اور دہشت گردوں میں فرق ملحوظ رکھا جائے۔ قوم صرف حکومت کا نام نہیں’ اس کے اجزائے ترکیبی میں اپوزیشن جماعتیں بھی شامل ہیں۔ اس وقت قوم کے سامنے درپیش مسئلہ دہشت گردی کا انسداد ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ’ فوج نے بڑی کامیابی کے ساتھ تقریباً مکمل کر لی ہے’ اْس نے اس راہ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں لیکن اس جنگ کا دوسرا میدان’ پکڑے گئے دہشت گرد اور اْن کے سہولت کاروں کو سزا دینا ہے۔
انہیں سزا دینے کی کونسی راہ اختیار کی جائے’ فوجی عدالتوں میں توسیع یا مروجہ عدالتی نظام یا کوئی اور طریقہ جو موثر ہونے کے ساتھ ساتھ انصاف و قانون کے تقاضے بھی پورا کرتا ہو اور عمل میں تیز ترین ہوِ’ یہ معاملہ پارلیمنٹ یا حکومت پر چھوڑنے کی بجائے قومی مشاورت سے حل کیا جائے۔ پچھلے دو سال کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو فوری سزا دینے کے لیے فوجی عدالتوں کا نظام بہتر ثابت ہوا ہے۔ بہرکیف اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بحث برائے بحث کی راہ ترک کر کے قومی اتفاق رائے سے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے۔