او چپ کر ابا !

Oldman Father

Oldman Father

تحریر: شاہ فیصل نعیم
میرے استاد کہا کرتے تھے: “پتر! انسان کی قدر تب تک ہی ہے جب تک وہ کوئی کام کاج کرتا ہے۔ جب اُس کے قویٰ جواب دے جاتے ہیں تواس کی اہمیت اسی دن سے گھٹنا شروع ہو جاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اس سے غصہ ٹھنڈا کرنے کا کام لیا جاتا ہے یا بیمار جان کراسے کال کوھری میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بالکل اس چار پائی کی طرح جو ساری عمر انسان کو زمین پر نہیں گرنے دیتی مگر جب وہ ٹوٹ جاتی ہے تواُس کا ٹھکانہ کوٹھری کی نکڑ ہی ہوا کرتی ہے یا وہ جلانے کے کام آتی ہے “۔

چند دن پہلے میں اسٹیشن سے نیوکیمپس آرہا تھا جب گاڑی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ واقعہ کوئی اتنا بڑا نہیں تھا مگر سبق بہت بڑا دے گیا۔ ایسے واقعات روز ہمارے گردونواح میں دیکھنے کو ملتے ہیں مگر ان کی اہمیت کا اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی اُن پر سوچتا ہے۔

خواتین والے کیبن سے ایک چار پانچ سالہ بچی مردوں والے کیبن میں وارد ہوتی ہے جس کے چہرے سے پریشانی کے آثار نمایاں ہیں۔ وہ گرتی سنبھلتی میرے پیچھے والی سیٹ پہ بیٹھے شخص کی طرف بڑھتی ہے۔۔۔۔۔۔کچھ لمحے اُس کے غصے سے بھرے چہرے کو دیکھتی ہے اور پھر ڈرتے ڈرے لبوں پہ آئی بات کہہ دیتی ہے: “پاپا! پاپا! مجھے پیاس لگی ہے ۔۔۔۔مجھے پانی چاہیے”۔

Girl

Girl

باپ بچی کی بات سنتے ہی بول پڑتا ہے: “گھر سے پی کے آنا تھا۔۔۔۔۔۔۔اب میں تیرے لیے کہاں سے پانی لاؤں۔۔۔۔۔۔۔چلو واپس اپنی ماں کے پاس چلو۔۔۔۔۔۔۔ اب گھر جا کے ہی پانی پینا”۔ “جی پاپا !” اس کے ساتھ ہی وہ سہمی سی لڑکی واپس خواتین کیبن میں چلی جاتی ہے۔ کچھ دیر گزرتی ہے تو لڑکی پھر آتی ہے: “پاپا ! مجھے بہت پیاس لگی ہے ۔۔۔۔۔۔ مجھے پانی پینا ہے”۔ قبل اس سے کہ وہ شخص کچھ کہتا اس کےساتھ والی سیٹ پہ بیٹھا ایک بوڑھا سا شخص بول پڑتا ہے:
“پتر ! ابھی سٹاپ آنے والا ہے وہاں سے پانی لے دینا بچی کو”۔

اُس شخص کےچہرے پر غصے کے آثار بڑھتے ہیں اور بزرگ سے یوں گویا ہوتا ہے: “او چُپ کر ابا ! پتا تجھے کچھ ہوتا نہیں ۔۔۔۔۔ ایسے ہی ہر وقت بولتا رہتا ہے”۔ اتنی بات سن کر وہ بوڑھا اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہےاور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتا ہے۔ بیٹا باپ پہ غصہ نکال رہا ہے اور بچی آس پاس بیٹھے لوگوں سے پوچھ رہی ہے:”بھائی آپ کے پاس پانی ہوگا؟، انکل آپ کے پاس پانی ہو گا؟ مجھے بہت پیاس لگی ہے”۔ ایک شخص بچی کو اپنے پاس روک لیتا ہے اور گاڑی کے رکنے تک اُسے اِدھر اُدھر کی باتیں سنا کر اُس دل بہلانے لگتا ہے۔

اُس کھڑکی سے باہر دیکھتے بزر گ کی بات پر غور کریں اور کچھ پل کے لیے سوچیں کے کیا اُس نے کچھ بُرا کہا؟ کیا اُس نے کوئی انسانیت سوز بات کہہ دی؟ کیا بوڑھا ہونے کے باوجود اُس میں انسانی جذبات زندہ نہیں؟ کیا وہ آج بھی ایک باپ ہی نہیں ؟ جو ایک بیٹی کی فریاد سے تڑپ اُٹھتا ہے ؟ اُس میں ایسی کوئی بُرائی نہیں اگر کوئی بُرائی ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ اس مادہ پرستی کے دور میں زندگی کے اُس دور میں پہنچ چکا ہے جب انسان کو بوڑھا ہونے کے باعث بیکار سمجھ کر کوٹھری میں ڈال دیا جاتا ہے۔

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر:شاہ فیصل نعیم