تحریر : شاز ملک جانے کب سے خاموشی کی گہری کالی چادر کی بکل مار کر یہ چپ میرے دل کی دہلیز پر آن بیٹھی ہے ،میں اسے دیکھتی ہوں محسوس کرتی ہوں مگر اسکے قریب جانے سے کتراتی ہوں مگر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی اس بکل میں چھپا لیتی ہے *بالکل ایسے ہی جیسے کبھی شب مہتاب میں کوئی کالی بدلی کا گہرا سایا سنہرے چاند کی کرنوں کو معدوم کرتا ہوا اسکی نورا نیت پر اپنی کالی چھایا ڈال کر اسے بھی اندھیروں میں ڈبو دیتا ہے ،پہلے پھل تو میں بھی گھبرا جایا کرتی تھی جب وہ میرا ہاتھ تھامے میرے ساتھ چلنے لگتی تو مجھے الجھن ہونے لگتی میں اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ سے چھڑانے کی ناکام سعی کرتی اور پھر روہانسی ہو جاتی تب وہ میرا ہاتھ اور مضبوطی سے تھام لیتی اور التجا کرتی کے مجھے خود سے جدا نہ کرو اپنے ساتھ رہنے دو میں ایک سہیلی کی طرح تمہاری ہمراز دمساز ہوں مجھے محسوس کر کے مجھ سے دوستی کر کے دیکھو میں اسکی نگاہوں میں دیکھتی تو وہ مجھے سچی لگتی اسکی آنکھوں میں سچائی کی وہ چمک اور اسکے ہونٹوں پر خلوص بھری مسکراہٹ نظر آتی تو میں پسیج جاتی ،اور اسکا ہاتھ پکڑکر ذات کے ان دیکھ جزیروں کو کھوجنے لگی روز اس سے ملتی اور اسکے وجود کا احساس میری ذات کی رگ و پے میں اترتا چلا گیا -وہ گھنٹوں میرے ساتھ رہتی اور پھر مجھے اس سے محبت ہونے لگی
جیسے ایک دوست کی سچی دوستی جیسے پاک محبت ،اور پھر مجھے یہ ادراک ہوا کے وہ اور میں لازم و ملزوم ہو گئے ہیں – مگرپھر اکثر ایسا ہوتا کے مجھے اس سے اکتاہٹ ہوتی میں اس سے آنکھیں بچا کر گزرنا چاہتی وہ خاموشی سے یہ دیکھ رہی تھی سمجھ رہی تھی مگر میں تھی کے بس خود سے ہی الجھ رہی تھی – ایسے ہی ایک دن وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچتی ہوئی میرے احتراز کے باوجود مجھے ایک کہنہ سے دروازے پر لے گئی جس پر زنگ آلود تالا لگا تھا اس نے ہلکا سا ہاتھ مارا تو وہ تالہ کھل گیا ایسے جیسے اسی کی چاپ کا صدیوں سے منتظر ہو وہ اسے کھول کر کہنے لگی جاؤ اسکے اندر داخل ہو جاؤ میں گھبرا کر بولی میں اکیلی تن تنہا تمہارے بنا کیسے جاؤں وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی میں حیرت زدہ اسکو دیکھ نے لگی وہ اتنا ہنسی کے اسکی آنکھیں پانی سے بھر گئیں تب وہ میرے گلے لگ گی اور پھر مجھے اس دروازے کی طرف دھکیل کر بولی جاؤ دھند کے اس پار بھی جا کر دیکھو تمہارے وجدان کی روشنیوں میں اضافے کے لئے یہ جدائی بہت ضروری ہے تمہاری اکتاہٹ کو چاہت میں بدلنے کے لئے یہ سفر بہت ضروری ہے
یہ آگہی کا سفر ہے تمہیں اکیلے ہی اس کی مسافتوں کو سر کرنا ہو گا ´میں اس پار سے اس پار کے سفر میں تمہاری ہمراہی نہیں ہوں مگر اس در کی دربان بن کر یہیں بیٹھی تمہاری منتظر رہونگی تم جب بھی واپس آؤ گی مجھے یہاں بیٹھی پاؤ اور اگر تم کو سفر کی مسافتوں لا سمندر ڈبو دے تو یہ تمھاری قسمت ہو گی فی الوقت تمہیں اس پار سے اس پار تک کا سفر مبارک ہو ،یہ کہکر اس نے مجھے اس پار دھکیل کر در بند کر دیا ،میں حیرت کدے کو دیکھ رہی تھی بلکل ایسے ہی جیسے کوئی گھپ اندھیرے میں یکدم تیز روشنی کے آ جانے سے کچھ بھی دیکھ نہیں پاتا مگر میری سماعتیں عجیب بے ہنگم شور سے آشنا ہو رہی تھیں ،میں حیران و پریشان گنبد بے در کی گمشدہ صدا کی طرح یہاں وہاں بھٹکنے لگی ،جہاں بےہنگم آوازوں کے شور نے میری سماعتوں کو بے جان اور میری بصارتوں کو نڈھال کر دیا تھا
Noise
مجھے لگنے لگا کے میں اسس شور و بے ہنگم کا حصہ بن کر خود اپنی ذات سے بچھڑ کر اپنے وجود سے بیزار ہو جاؤں گی اور خود سے بھی بچھڑ جاؤں گی میں چیخنے لگی مگر میری آواز کا دم شور میں گھٹ گیا ، میری بصارتیں نمدیدہ سمایتیں آبدیدہ اور چاہتیں گمشدہ راہوں میں کھونے لگی تھیں ´وجود کا ذات سے اور گیان کا دھیان سے ربط ٹوٹ چکا تھا ´بس بیچنیوں کا احساس دل کی رگ رگ میں پیوست ہونے لگا تھا ´ مجھے لگنے لگا کے میری بصارت و سماعت سب کچھ ختم ہونے کو ہے میں اس پار سے اس پار پہنچ کربھی تشنہ لب ہوں تبھی میں نے بے اختیار ان راہوں کو ڈھونڈھنا شروع کیا میرا سفر اور تلاش ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی کبھی میں وجود کو سنبھالتی تو کبھی ذات میں امنڈتے شور سے نبرد آزما ہوتی تو کبھی روح کی چیخ و پکار کو دبانے کی کوشش کرتی اور پھر بلآخر مجھے وو در کھلا نظر آیا میں دوڑتی ہوئی اس در میں داخل ہوئی تو وہ مجھے وہیں بیٹھی نظر آئی گویا میرے وجود و ذات میں روشنی بھرنے لگ می دورڈتے ہوئے اس در کو پار کر کے اس سے جا کر لپٹ گیی مجھے علم نہیں تھا کے میں زارو قطار رو رہی تھی
وہ مجھے دلاسے دے رہی تھی کے میں تمہارےپاس ہوں تمہارے ساتھ ہوں مگر میں اسکی کب سن رہی تھی بس اسکو یہی کہے جا رہی تھی اب مجھے کبھی خود سے دور نہ کرنا اب میں کبھی اکتاہٹ کا اظہار نہیں کرونگی کبھی تمہیں خود سے دور نہیں کرونگی اور پھر تھک کر زمین پر بیٹھ گئی وہ بھی میرے پاس بیٹھ گئی مگر ابکی بار اس نے میرا ہاتھ نہیں تھاما میں نے اسکا ہاتھ زور سے پکڑ لیا جیسے کوئی بچہ ہجوم میں کھونے کے ڈر سے ماں کا ہاتھ تھام لیتا ہے ،وہ ہولے سے مسکرائی ، مجھے اسی لمحے میں احساس ہوا شعور ملا کے تنہائی کا ہاتھ پکڑ کر چلنے میں انسان گیان و دھیان کی کن راہوں کا مسافر بن جاتا ہے جہاں سے واپس جانا بڑا مشکل ہوتا ہے
Noise
جہالت کی بدنما آوازوں کے بے ہنگم شور کو برداشت کرنا کس قدر ازیت ناک ہوتا ہے -چپ کی بکل مارنے کے بعد اندھیرا خود بے خود روشنی میں ڈھل جاتا ہے آگاہی کے جگنووں کو کھوجنے کے لئے چپ کے جنگل میں بھٹکنا پڑتا ہے احساس کے دریچوں کی روشنی کے لئے روشنی کو پانے کے لئے اندھیروں کوسہنا پڑتا ہے دل ممیں بسی خاموشی اوڑھ کر اغراض کے شور و غل سے بچنا پڑتا ہے کاسہ درد کو اٹھا کر روح کو تنہائی کے جاںگسل لمحوں سے گزرنا پڑتا ہے تب جا کر اس پار سے اس پار کھڑی چپ کا راز سمجھ آتا ہے