تحریر ۔۔۔ شاہد شکیل پجھتر میلین سے زائد آبادی والا ملک ایران دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے انیس سو اناسی کے انقلاب سے رضا شاہ پہلوی کی شہنشایت کا خاتمہ ہوا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نام سے ایک نئی اسلامی ریاست کا آغاز ہوا، انقلابی دور میں بڑی تعداد میں ایرانی بیرون ملک فرار ہوئے کیونکہ رضا شاہ پہلوی کا خواب کہ تہران کو پیرس بنایا جائے گا کا خواب پورا نہ ہو سکا اور کئی ایرانی جو نام کے مسلمان تھے جان چکے کہ ایران اب اسلامی ریاست بن چکا ہے
لہذٰا پہلوی کے پیرس کی بجائے حقیقی پیرس کا رخ کیا جائے، ایران میں اسلامی قوانین رائج ہوئے جس کے تحت قتل، منشیات اور سیاسی جرائم، عصمت فروشی، اخلاقیات، اور توہین رسالت کی خلاف ورزی کرنے پر موت کی سزا عائد کی گئی، اعداد وشمار کے مطابق دوہزار گیارہ میں منشیات اور سمگلنگ کے جرائم کی شرح اکیاسی فیصد ، توہین رسالت کی شرح چار فیصد، عصمت دری و فروشی کے واقعات چار فیصد ہونے کے سبب مجرموں کو پھانسی دی جاتی، کوڑے لگائے جاتے یا سنگسار کیا جاتا۔
جرمنی کے ایک معروف میگزین نے حالیہ رپورٹ میں ایران کے دارالحکومت تہران میں ہونیوالے ایک ناقابل یقین موضوع کا ٹھوس ثبوت کی روشنی میں انکشاف کیا کہ کیا ایک اسلامی ریاست جہاں قانون کی عمل داری کا چرچا دنیا بھر میں ہو وہاں ایسے گھناؤنے اور غلیظ کاروبار پر ایرانی حکومت کیوں خاموش ہے؟ رپورٹ کے مطابق نہ صرف تہران بلکہ ریاست کے کئی بڑے شہروں میں کاؤچ سرفنگ کا رواج عام ہو چکا ہے، کاؤچ سرفنگ ایک ایسی نائٹ پارٹی یا محفل ہے جس میں ایرانی اور غیر ملکی سیاح مختصر لباس میں مغربی موسیقی کی دھن اور مے نوشی میں مست ہو کر کھلم کھلا رنگ رلیاں مناتے ہیں
ان نائٹ پارٹیوں کو کاؤچ سرفنگ کے ٹائٹل سے رجسٹرڈ کروایا گیا ہے تاکہ اصل کارناموں پر پردہ ڈالا جا سکے ان پارٹیوں میں ہر فرد کو آزادی حاصل ہے کہ وہ ممبر شپ کے بعد کسی بھی شہر میں کاؤچ سرفنگ اٹینڈ کر سکے رقص کرے، شراب نوشی یا خواتین سے چھیڑ خانی کرے ہر ممبر کسی بھی پابندی سے مستثنا ہے،رپورٹ کے مطابق کاؤچ سرفنگ میں ملکی و غیر ملکی خواتین بھر پور حصہ لیتی ہیں جہاں وہ منیِ راک ،فیشن ایبل لباس اور ہئیر سٹائل بنوا کر مردوں کے ساتھ رقص کرتی اور دل لبھاتی ہیں ،مغربی دھن میں رات گئے انجوائے کیا جاتا ہے، پارٹی ہالز میں ہر دیوار پر برہنہ پینٹنگز آویزاں ہوتی ہیں آعلیٰ سونف سے تیار کردہ شراب کے دور چلتے ہیں اور غیر رسمی بات چیت کے علاوہ چھیڑ خانی کی جاتی ہے۔
کاؤچ سرفنگ کے بانی نے انٹر ویو میں بتایا کہ کاؤچ سرفنگ ایک سوشل نیٹ ورک ہے جہاں دنیا کا ہر فرد پرائیویٹ طریقے سے اس نیٹ ورک میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے کاؤچ سرفنگ کی ایران کے کئی بڑے شہروں میں شاخیں موجود ہیںجہاں ناچ گانے کے علاوہ ہوٹلنگ سسٹم بھی ہے ہمارا مقصد عریانیت یا فحاشی پھیلانا نہیں بلکہ سیاحوں کو انٹر ٹینمنٹ مہیا کرنا ہے دنیا کے ہر ملک میں مختلف ناموں سے اس قسم کے نائٹ کلب یا نیٹ ورک قائم ہیں ہم چاہتے ہیں کہ اس پروگرام کے تحت میزبان اور مہمان تمام حدود کو تجاوز کرکے دوستی اور تعلقات کا ذریعہ بنیں ہمارے پروگرام میں ملکی و غیر ملکی باشندے بخوشی شرکت کرتے ہیں سرکاری طور پر اس قسم کے پروجیکٹ کی ممانعت ہے
لیکن ہم ایک رجسٹرڈ نیٹ ورک کو چلا رہے ہیںاس نیٹ ورک میں ہر خاص و عام شرکت کر سکتا ہے لیکن بنیادی طور پر اسکی رجسٹریشن کے بعد ممبر شپ کارڈ جاری کیا جاتا ہے جس سے وہ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی کاؤچ سرفنگ پارٹیوں میں شامل ہو سکتا ہے یہ پارٹیاں محض عیاشی یا رنگ رلیاں منانے کے لئے منعقد نہیں کی جاتی بلکہ سیاحوں اور ان افراد کیلئے محض انٹرٹینمنٹ ہے جو روز مرہ زندگی کے ستائے ہوتے ہیں اور پر سکون لمحات کی خواہش رکھتے ہیںانہیں مجبور نہیں کیا جاتا کہ وہ شراب نوشی کریں یا کسی اور ایکٹی ویٹی میں شامل ہوں ہماری سب سے بڑی پیشکش یہ ہے کہ سیاحوں کو پرسکون لمحات میسر کریں وہ انجوائے کریں اور تمام ممالک کے باشندوں سے روابط اور دوستی قائم ہو۔
Parent
میگزین کی رپورٹ کے مطابق کئی ایرانی بیرون ملک جانے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن جب تک وہ فوجی خدمات (ٹریننگ )جیسے اہم معاملات مکمل نہیں کر لیتے انہیں پاسپورٹ جاری نہیں کیا جاتا خواتین بھی والدین یا شوہر کے اجازت نامے یا رضا مندی کے بغیر بیرون ملک سفر نہیں کر سکتیں، کاؤچ سرفنگ کے بانی نے بتایا کہ انہیں معاملات کو سلیقے سے حل کرنے کیلئے کاؤچ سرفنگ کا آغاز کیا گیا تاکہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے تعلقات، دوستی اور روابط میں اضافہ ہو گا اور بیرون ملک کی خواہش رکھنے والے ایرانیوں کیلئے آسانیا ں پید ا ہونگی۔
ایک ایرانی لڑکی نے بتایا کہ اسے یورپ جانے کا جنون ہے اور اسلئے کاؤچ سرفنگ میں شمولیت اختیار کی میرے پاس اتنی رقم نہیں اور نہ ہی کسی غیر ملکی سے دوستی یا تعلقات ہیں شاید کاؤچ سرفنگ میں شامل ہونے کے بعد میرے روابط بڑھیں اور یورپ جانے کا خواب پورا ہو۔
کاؤچ سرفنگ تہران کے علاوہ شیراز میں بھی بہت مقبول ہے ،مرجان کا تعلق شیراز شہر سے ہے وہ آزاد خیال اور مغربی اطوار کی دلدادہ ہے پینٹنگ کا شوق رکھتی ہے اور کاؤچ سرفنگ کی ممبر ہے اسکا کہنا ہے میں اپنی پینٹنگز کاؤچ سینٹر میں متعارف کرواتی رہتی ہوں اور سیاحوں سے روابط بھی پیدا ہو چکے ہیں جلدہی ایران کو چھوڑ دونگی کیونکہ قدامت پرستی اور اسلامی قوانین نے میری آزادی سلب کر رکھی ہے جب بھی یورپ کے بارے میں بات ہوتی ہے تو اس ملک سے بھاگ جانا چاہتی ہو ں لیکن قوانین آڑے آتے ہیں۔
بازارِ حسن دنیا کے ہر ملک میں ہیں حکومتی ادارے اور انکے کارکن ہر لیگل و ان لیگل کاروبار میں ملوث ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اسلامی ممالک میں دھوکا دہی اور بذریعہ کرپشن رنگ برنگے دھندے کئے جاتے ہیں جو کہ اسلامی قوانین کے تحت ممنوع ہیں اور مغربی ممالک میں بازار حسن ایک شوپنگ مال کی طرح لیگل انٹرٹینمنٹ سینٹر ہے جہاں ہر خاص و عام بہتی گنگا سمجھ کر ہاتھ منہ دھونے چلا جاتا ہے۔