”حضور اکرم نور مجسم محمدۖ کی ولادت باسعادت کے تذکرے اور تذکیر کا نام محفل میلاد ہے۔ اس تذکرے اور تذکیر کے ساتھ ہی اگر دلوں میں مسرت و خوشی کے جذبات کروٹ لیں۔ یہ شعور بیدار ہوکہ کتنی بڑی نعمت سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سرفراز کیا اور اس کا اظہار بھی ختم الرسلۖکی محبت و اطاعت اور اللہ بزرگ و برتر کی حمدوشکر کی صورت میں ہو اور اجتماعی طور پر ہو تو یہ عید میلاد النبیۖ ہے۔لوگو! خوش ہوجاؤ اور خوشی سے نبیۖ کی آمد کا جشن منایا کرو کیونکہ یہ جشن تو خود آقاۖ نے منایا ہے۔ نبی ۖنے اپنی ولادت کی خوشی میں پیرکا روزہ رکھا۔ نبی علیہ السلام اپنی آمد کی خوشی منائیں اور نبی علیہ السلام کے غلام اپنے آقا کا جشن نہ منائیں۔ یہ کیسی محبت ہے؟ اسی لئے تو مسلمان ہر سال زمانے کی روایات کے مطابق جشن ولادت مناتے ہیں۔ کوئی روزہ رکھ کر مناتا ہے تو کوئی قرآن کی تلاوت کرکے، کوئی نعت پڑھ کر، کوئی درود شریف پڑھ کر، کوئی نیک اعمال کا ثواب اپنے آقاۖ کی بارگاہ میں پہنچا کر تو کوئی شیرینی بانٹ کر، دیگیں پکوا کر غریبوں اور تمام مسلمانوں کوکھلا کر اپنے آقا ۖکی ولادت کا جشن مناتا ہے۔ یعنی زمانے کی روایات کے مطابق اچھے سے اچھا عمل کرکے اپنے آقاۖ کی ولادت کا جشن منایا جاتا ہے۔
اللہ رب العزت کا شکر ہے، جس نے ہمیں اپنی خَلق کی سب سے بڑی نعمت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی عطا کی اور ہمیں توفیق مرحمت فرمائی کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ساتھ اپنا رشتہ محبت، رشتہ اِتباع، رشتہ تعظیم اور رشتہ نصرت استوار کر سکیں۔ اور حضور ۖکی غلامی کی اس نسبت کے پیشِ نظر وہ عظیم شب عطا کی جو بارہ ربیع الاول کی شب میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے تاکہ ہم روئے زمین پر آقا علیہ السلام کی ولادت کی خوشیاں منا سکیں، اور میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان خوشیوں کے ساتھ اپنی زندگی ظاہراً و باطناً حضور علیہ السلام کی غلامی، اطاعت اور اتباع میں گزار سکیں،(الاء عراف، 7 : 172)،۔بارہ ربیع الاوّل ولادت محمد مصطفی ۖ کا دن ہے ،بارہ ربیع الاوّل کے مبارک و با برکت دن کو عرب کا چاند دنیا کے افق پر طلوع ہوا تو فرشتوں نے بھی کہا خوشیا ں منائو حضور ۖ آگئے ہیں ، اس لیئے تو حضور ۖ کے غلام ،عاشق رسول ۖ کہتے ہیں گلیاں بازار سجائو حضور ۖ آگئے ہیں۔
جشن عید میلاد نبی منائو حضور ۖ آگئے ہیں،آپ ۖ کے آنے سے ظلم وجبر کا خاتمہ ہوا اور حق سچ کا چراغ روشن ہوا ، ا للہ رب العزت نے اپنے پیارے محبوب محمد مصطفی ۖ کو دنیا میں یتیموں کے غم خار بے سہاروں کا سہارا اور پوری امت مسلمہ کی بخشش کا وسیلہ بنا کر بھیجا، اللہ رب العزت نے دنیا بنائی اپنے پیارے محبوب آقا دوجہاںۖ کیلئے ،اگر آپ ۖ نے تشریف نہ لانا ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا ،نہ زمین و آسمان ہوتے نہ خوبصورت دنیا کی چہل پہل ہوتی ، نہ ہو ائیں ہوتیں ،نہ سمند ر ہوتے ،نہ پرندے ہوتے ،نہ جانور ہوتے نہ درندے ہوتے،نہ پھل پھول ہوتے ،نہ لاتعد اد نعمتیں ہوتیں ،نہ جنت ہوتی نہ دوزخ ہوتی ،یہ سب کچھ آقا دوجہاںۖ نبی آخرالزماںکے صدقے قائم ہوا ،12ربیع الاول کا دن ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ نبی آخرالزمان محمد مصطفی ،سرور کونین ،احمد مجتبیٰ ۖ ّ کی آمد سے آپ کی نورانی کرنوں سے حیات انسانی منور ہوئی تاریخ میں علم و فضل کے لاکھوں کروڑو ںدیئے روشن ہوئے،آپۖ کے فیض سے مظاہر فطرت آشکار ہوئے اس آفتاب نبوت کی بشارت توریت و انجیل نے بھی دی ،اور نبی آخرالزمان محمد مصطفی ،سرور کونین احمد مجتبی ۖ کے ذکر کے متعلق اللہ پاک نے خود فرمایا ”ورفعنالک ذکرک”یہ ذکر کل بھی بلند تھا ،آج بھی بلند ہے اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک بلند رہے گا۔
آپ سرکار ۖ کے حسن و جمال کی جائے تو نہ قلم میں اِتنی سکت ہے کہ حسن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تحریر میں لا سکے اور نہ زبان ہی میں جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کرنے کا یارا ہے۔ سلطانِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات محا سن ِ ظاہری و باطنی کی جامع ہے، کائناتِ ارض و سماوات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کے پَرتو سے ہی فیض یاب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کے فیضان سے ہی کائناتِ رنگ و بو میں حسن کی خیرات تقسیم ہوتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے حسن و جمال کو بیان کرنے کے لئے اہلِ قلب و نظر نے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیئے۔ شاعروں نے خامہ فرسائی کی حد کر دی لیکن کوئی بھی اس مہبطِ حسن اِلٰہی کی رعنائیوں کا اِحاطہ نہ کر سکا اور بالآخر سب کو اپنے عجز اور کم مائیگی کا اِعتراف کرنا پڑا۔
اللہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی ۖ کو حسن سیرت کے جملہ اوصاف کے ساتھ ساتھ لازوال اور لاثانی حسن صورت سے بھی متصف فرما کر دنیا میں بھیجا۔ رسول اللہ ۖ کاحسن سیرت کے ساتھ ساتھ حسن صورت بھی ایک مکمل باب کی حیثیت رکھتا ہے،جس طرح آقائے دو جہاں ۖکاحسن سیرت سراپا معجزہ ہے اسی طرح آپ کا حسن و جمال بھی آپ کا عظیم معجزہ ہے۔ رسول اللہ ۖجیسا دنیا میں نہ کبھی آیا ہے اور نہ کبھی آئے گا کیونکہ سیرت اور صورت دونوں کا حسن و جمال آپ ۖپر منتج ہوچکاہے۔آقا دوجہاںۖ نبی آخرالزماں کی ولادت باسعادت مسلمانوں کیلئے خوشی،نعمت اور برکت کا باعث ہے اس مبارک دن کو زیادہ سے زیادہ شان و شوکت سے منانا چاہئے آپ ۖکا وجود اقدس سراپا رحمت ہے۔
جو امت کے دلوں کو گرویدہ بنا کران اسباب و ذرائع کی تلاش میں لگا دیتا ہے جو حضور ۖکے ساتھ ہمارے تعلق کو پختہ کردے،محبت مصطفی ۖ ضامن نجات اور مقصد حیات ہے ،آپ ۖکے محاسن طیبہ اور اخلاق کریمانہ نے صحابہ کرام کو ساری زندگی دیوانہ بنائے رکھا اور اسی جذبہ محبت میں وہ ساری دنیا ئے کفر سے ٹکرا گئے حتیٰ کہ محبوب کریم ۖ کی مخالفت میں اگر باپ بھائی بھی سامنے آئے تو غلامان رسول ۖ نے ان کے ٹکڑے کرنے سے بھی گریز نہ کیا، ربیع الاول میں علماء کرام سیرت طیبہ کی محافل میں آنحضرت ۖ کی حیات طیبہ کے ان تمام درخشاں پہلوئوں سے عوام کو آگاہ کریں جن پر عمل کرنے میں ہی دنیا وآخرت کی تمام کامیابیوں کا راز مضمر ہے،ہمیں اس مبارک دن کو زیادہ سے زیادہ شان و شوکت سے منانے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین،