حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم

حضور نبی کریم محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول عام الفیل بمطابق 570ء یا 571ء کو ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علما 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق قریش عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ہاشم سے تھا اس خاندان کی شرافت، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمر میں نازل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھاجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ سال تھی تو والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وہب تھا جو قبیلہ بنی زہرہ کے سردار وہب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں یعنی ان کا شجرہ ان کے شوہر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔

آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانام مبارک آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نئے سردار حضرت ابو طالب نے سر انجام دیں۔ ”محمد” عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی”جس کی تعریف کی گئی” ہے یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب تعریف کرنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے نام و القاب ہیں سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر معجزات رونما ہوئے مثلاً آتشکدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا ولادت سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھے مگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت سرسبزوشاداب ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے مشکوٰة کی ایک حدیث کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان میں تھے۔۔۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے”۔

تقریباً25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کا سفر کیا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے تجارتی قافلہ کے لیے تھا اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیںآپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 سال تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ پیدا ہوئیں620ء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے اس سفر کے دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھائی وہاں آپ کی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔

مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔غزوہ بدر 17 رمضان 2ھ (17 مارچ 624ئ) ،غزوہ احد7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء ) غزوہ خندق (احزاب) شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء )،غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ئ)،غزوہ بنی مصطلق: شعبان 6ھ (دسمبر 627ئ۔ جنوری 628ئ)،غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء )،غزوہ بنی مصطلق: شعبان 6ھ (دسمبر 627ئ۔ جنوری 628ء ) ،غزوہ خیبر: محرم 7ھ (مئی 628ء )،جنگِ موتہ: 5 جمادی الاول 8ھ (اگست۔ ستمبر 629ء ) ،غزوہ فتح (فتحِ مکہ) رمضان 8ھ (جنوری 630ء )،غزوہ حنین: شوال 8ھ (جنوری۔ فروری 630ء )،غزوہ تبوک: رجب 9ھ (اکتوبر 630ء )۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ ازواج کے نام ملتے ہیں جن عورتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقد فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی۔ جن میں سے نو عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے وقت حیات تھیںاور دوعورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں وفات پاچکی تھیں ن میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت ماریہ قبطیہ سے اولاد ہوئی اولاد میں حضرت ابراہیم کے ماسوا تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں ا ن ہی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھیں حضرت ابراہیم جو بچپن ہی میں 28یا 29شوال 10ھ مطابق 27جنوری 632ء کو مدینہ کے اندر انتقال کر گئے البتہ صاحبزادیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ حیات رہیں زینب رضی اللہ عنہا کی شادی ہجرت سے پہلے ان کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابو العاص بن ربیع سے ہوئی رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کی شادی یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضٰ اللہ عنہ سے ہوئی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی جنگ بدر اور جنگ احد کے درمیانی عرصہ میں حضرت علی بن ابی طالب سے ہوئی اور ان کے بطن سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، زینب اور ا م کلثوم پیدا ہوئیں۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام یہ ہیںحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا،حضرت سودہ رضی اللہ عنہابنت زمعہ ،حضرت زینب رضی اللہ عنہابنت خزیمہ،حضرت ام سلمہ ہندرضی اللہ عنہا،حضرت صفیہ رضی اللہ عنہابنت حی بن اخطب،حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بنت الحارث ،ضرت میموئتہ رضی اللہ عنہابنت الحارث الہلالیہ: ،حضرت ام حبیبہ رملہ رضی اللہ عنہا ،حضرت حفصہ رضی اللہ عنہابنت عمر ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابنت ابی بکر ،حضرت زینب بنت جحش یہ گیارہ بیویاں ہوئیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں آئیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت میں رہیں ان میں سے دوبیویاں ،یعنی حضرت خدیجہ اور حضرت زینب ام المساکین کی وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں ہوئی اور نو بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حیات رہیںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا اسے حجتہ الوداع کہتے ہیں آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء ) کو مدینہ سے روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔

حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ ححجتہ الوداع کے نام سے مشہور ہے اس خطبے کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا” (المائدہ3) اس حج کے تقریباًًً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو پیارے ہو گئے حجتہ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم انتقال کر گئے۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی حضرت علی نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ”درحقیقت تم لوگوںکے لیے اللہ کے رسول ۖ میں ایک بہترین نمونہ ہے ،ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوارہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے”(الاحزاب٢١) مسلم کی حدیث ہے کہ ایک دفعہ چند صحابہ نے حضرت عائشہ ام المومنین سے عرض کیا کہ آپ نبی اکرم ۖ کے کچھ حالات زندگی ہم کو بتائیں عائشہ صدیقہ نے تعجب سے دریافت کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا جو مجھ سے خلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کرتے ہو؟(مسلم )یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی قرآن تھی ہم مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پہ جشن عید میلاد النبی مناتے ہیں کیا کبھی ہم نیپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کریمہ پہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کی ۔۔۔؟ یہی ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

Dr. B.A. Khurram

Dr. B.A. Khurram

تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم