تحریر: محمد عبداللہ ایک بات تو طے شدہ ہے کہ ہر مسلمان چاہے وہ کسی بھی مسلک یا فرقے کا ہو وہ اللہ کے نبیﷺ سے حد سے زیادہ محبت کرتا ہے حبِ رسول ہمارے ایمان کا صرف حصہ نہیں بلکہ عین ایمان ہے- حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
” تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوستای جب تک کہ وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو-“ (بخاری و مسلم)
اسی طرح عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ آنحضرت سے کہنے لگے: آپ میرے لئے، میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں – آپ نے فرمایا ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں تم مومن نہیں ہوستےں- سیدنا عمرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو آپؐ نے فرمایا: اَب، اے عمر ! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو) (فتح الباری: ۱/۵۹)
اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ توبہ میں ارشاد فرماتے ہیں ﴿قُلْ إنْ کانَ اٰبَاؤکمْ وَاَبْنَاءُ کم وَاِخْوَانُکمْ وَاَزْوَاجُکمْ وَعَشِیْرَتُکمْ وَاَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْہا وَتِجَارَۃ تَخْشَوْنَ کسَادَہا وَمَسَاکنُ تَرْضَوْنَہا اَحَبَّ إلَیْکمْ مِنَ اللہ وَرَسُوْلِہ وَجِہادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہ بِاَمْرِہ ﴾
”(اے نبی! مسلمانوں سے)کہہ دیجئے! اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں ، اپنے کنبے والے اور وہ اَموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مامن جو تمہیں پسند ہیں ؛ اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا عذاب لے آئے-“ س آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے-اس لئے انہی چیزوں سے مومنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے- اللہ تعالیٰ واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو تب ایمان کا دعویٰ صحیح ہوستاو ہے- اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین و جائیداد اور تجارت اور پسندیدہ ماتنات خدا اور رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے یعنی کائنات کی ہر چیز اور ہر رشتے حتٰی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ اللہ کے نبیﷺ سے محبت ہمارے مومن مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے۔
اسی وجہ سے جیسے ہی ربیع الاول ماہ ولادت مصطفیٰﷺ کا آغاز ہوتا ہے تو اسی محبت رسول اللہﷺ کو لے ہر شخص جزباتی ہو جاتا ہے۔ کوئی سیرۃ النبیﷺ کی کانفرنس منعقد کروا رہا ہوتا ہے، کوئی جشن ولادت کے جلسوں کا اہتمام کر رہا ہوتا ہے، کوئی بتیاں جلا کر ، نعرے لگا کر اللہ کے نبیﷺ سے محبت کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ ہم یہاں پر کسی بھی قسم کے فروعی اختلاف میں جانے کی بجائے کہ آیا بارہ ربیع الاول یوم ولادت ہے یا یوم وفات، یوم ولادت کی خوشی میں جھنڈیاں سجانا، محفلیں کرانا اور گھروں کو سجانا بدعت ہے یا عین اسلام ہم یہاں پر اس بات پر بحث کریں گے کہ نبیﷺ سے محبت فقط نعروں اور دعوؤں کی حد تک ہی ہے، دو چار محفلیں منعقد کروا کر، سیرۃ النبیﷺ کی کانفرنس میں ایک آدھ گھنٹے کے لیے حاضری لگوا کر ہماری محبت کا حق ادا ہوجائے گا، جھنڈے اٹھا کر لاؤڈ اسپیکر پر شور شرابہ کرکے سو دو گز کی ریلی نکال کر ہم محمدﷺ سے محبت کے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں تو واللہ ہم بہت بڑی غلطی اور گمراہی میں ہیں۔
کیونکہ ایک طرف تو دنیا کی گندی اور غلیظ محبتوں کے بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہو کہ محبوب کے رنگ میں رنگ جانا ہی محبت ہے، محبوب کی رضا میں راضی ہوجانا ہی عشق ہے، رانجھا رانجھا کرتے رانجھا ہو جانا ہی محبت کی معراج ہے جبکہ جب باری کائنات کی عظیم شخصیت اور خیرالبشر، امام الانبیاءؑ کے ساتھ محبت کی باری آئے تو ہماری محبتیں اور ہمارا عشق فقط قول قرار، دعوؤں اور نعروں سے آگے نہ بڑھ پائے۔ یہ کیسی محبت ہے کہ نہ میری شکل و صورت محمد رسول اللہ ﷺ جیسی ہو نہ لباس و اطوار، نہ میرا دن اللہ کے نبیﷺ جیسا نہ میری رات ، نہ میرا طرز زندگی سید ولد آدم سے مطابقت رکھے نہ میرا اخلاق، نہ میرا گھر محمد عربیﷺ جیسا نہ میرا بازار۔ کسی بھی حوالے سے دیکھ لیا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ ہم فاطمہ رضی اللہ عنھا کے بابا ﷺ سے محبت کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں حقیقت میں تو میرے دل میں میری خواہشات کی محبت ہے، میری اولاد کی محبت ہے، میرے کاروبار کی محبت ہے، میرے اعزا و اقارب کی محبت ہے۔ واللہ ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولنا چاہیے کہ اگر تو ہمارے دل میں اگر ان چیزوں کی محبت اللہ اسکے رسول ﷺ اور جہاد فی سبیل اللہ کی محبت سے زیادہ ہے تو نہ تو ہمارا ایمان مکمل ہے اور اسلام کھرا اور سچا اور ہمیں اللہ کے عذاب کا انتظار کرنا چاہیے۔
دوسری طرف صحابہ کرام کی زندگیوں کو مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہﷺ کی محبت میں سانچے میں اس انداز سے ڈھالا تھا کہ ہر ایک پر محمد عربیﷺ کی سنت و سیرت کا رنگ چڑھ گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے فرما دیا کہ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ یعنی اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے۔
تو احباب آئیں اگر ہم واقعی اللہ کے نبیﷺ سے محبت کے دعوے میں سچے ہیں تو نعروں، جلسوں، ریلیوں، جھنڈیوں، بتیوں اور شور شرابے سے نکل کر سیرت و سنت النبویﷺ کو اپنائیں تاکہ ہم بھی دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہو سکیں۔ وما توفیق الا باللہ۔