ربیع الاول کا مہینہ انسانیت کی باد بہاری اور ہوائے مشک باری کا مہینہ ہے۔ کیوں کہ اسی متبرک مہینے میں باعث تخلیق دو عالم محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل یعنی 571ء میں جب آپ کی ولادت ہوئی اس وقت پوری انسانیت ضلالت و جہالت میں تھی۔ ہر طرف فساد و بگاڑ اور بد امنی کا دور دورہ تھا۔ دنیا سے امن و سکون اور نیکی و بھلائی اٹھ چکی تھی۔ انسان درندہ بن چکا تھا وہ سماج کے کمزور اور دبے کچلے انسانوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا جو جانور بھی جانور کے ساتھ نہیں کرتے، عورتوں کی کوئی حقیقت نہیں تھی وہ صرف کھلونے کی آلہ اور عیش و عشرت کی چیز بن کر رہ گئی تھی۔ والدین بچیوں کی پیدائش پر اسے زندہ در گور کر دیتے تھے۔ خیر و شر میں کوئی تمیز نہیں تھی۔
سود ، رشوت، چوری، ڈکیتی ، زنا اور قمار بازی عام تھی غرض پوری انسانیت بربادی کے دہانے پر تھی کہ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کا رہبر بنا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔ آپ شروع ہی سے شریف ، نیک ایماندار اور قول کے سچے تھے۔ لوگ آپ کو صادق الامین یعنی سچا اورامانت دار کہہ کر پکارا کرتے تھے اور اپنی امانتیں آپ کے پاس محفوظ رکھا کرتے تھے۔ کبھی کسی نے آپ کو جھوٹ بولتے نہیں سنا ، اپنے وعدے کے پکے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کی یہ حالت دیکھی تو آپ نے اس کی پرزور مخالفت کی۔ اور ظلم و فساد کو ختم کیا۔ چوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کے اعلیٰ مقام پر فائز کیا تھاتو بھلا آپ ان برائیوں کو کیسے برداشت کر سکتے تھے۔ 40 سال کی عمر میں آپ کو نبوت ملی او رنبوت ملنے کے بعد تقریباً 23 برسوں تک زندہ رہے ، اس 23 برسوں میں آپ نے دنیا کی کایا پلٹ دی۔ بگاڑ و فساد کو ختم کرنے اور ضلالت و گمراہی کو دور کرنے کے لئے ا?پ نے مسلسل دعوت و تبلیغ کیا اور لوگوں کو بتایا کہ ہم سب ایک اللہ کے مخلوق ہیں۔
لہذا صرف اور صرف اس کی عبادت او رپرستش کرو اس کے علاوہ کسی کے آگے سر جھکانا اور کسی سے کچھ مانگنا جائز اور درست نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سارے انسان برابر ہیں، سب آدم کی اولاد ہیں ، اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر اسی طرح کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی برتری اور فضیلت حاصل نہیں ہے۔ البتہ تم میں جو شخص اللہ سے جتنا ڈر نے والا ہے اس کا مرتبہ اسی قدر بڑا ہے۔ آپ نے دنیا کو انسانیت، محبت، بھائی چارگی اور عدل و انصاف کی تعلیم دی۔ اور سب سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھلایا۔ آپ معزز ترین قبیلہ قریش کے معزز فرد ہونے کے باوجود بھی رومی نسل کے حضرت صہیب اور حبشی نسل کے حضرت بلال کو اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے۔ او راس طرح برابری کا معاملہ کرتے تھے جس طرح اپنے خاندان کے کسی فرد کے ساتھ معاملہ کرتے۔ آپ نے مساوات و برابری کی ایسی رسم چلائی کہ انسانی تاریخ نے پھر دیکھا کہ آزاد اور معزز نسل کے مسلمان بادشاہوں کے علاوہ آزاد نسل مسلمانوں پر غلام نسل کے بادشاہوں نے حکومت کی۔آج دنیا نے جمہوریت و مساوات کا جو اعلیٰ نظریہ پیش کیا ہے جس کا پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ عملی مساوات کا ایک چھوٹا نمونہ بھی نہیں پیش کر سکتی۔ امریکہ آج جمہوریت کا سب سے بڑا علمبرداربنتا ہے۔ لیکن وہ کالوں کو گوروں کے مساوی نہیں سمجھتا۔ اور زندگی کے مختلف شعبے میں ان کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پاکیزہ معاشرے تشکیل کی۔جس میں صرف خیر ہی خیر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی عزت و پاکدامنی کو یقینی بنایا۔ ان کو مردوں جیسی سماجی عزت عطا کی۔ باپ کی وراثت میں بیٹی کا حصہ متعین کیا اور لڑکیوں کی پرورش و پرداخت کا ثواب لڑکوں کی پرورش سے زیادہ بتلایا۔ اور لڑکیوں کو مارنے، قتل کرنے یا زندہ در گور کرنے پر وعید اورسخت سزا کا مرتکب بتایا۔غرض آپ نے ایک صحت مند سماج کی تشکیل کی، کسی بھی چیز کا حکم کرنے سے پہلے آپ اس پر عمل کرکے دکھلاتے اس کے بعد صحابہ کرام کو اس پر عمل کا حکم فرماتے۔ آپ کے اعمال اور اخلاق و کردار ایسے تھے کہ لوگ آپ کو دیکھ کر آپ کا گرویدہ ہو جاتے او رآپ کے دین میں داخل ہو جاتے۔ مستشرقین نے جہاں اسلام پر بہت سارے الزامات عائد کئے ہیں وہیں ایک بڑا الزا م یہ بھی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ یہ سراسر بے بنیاد ہے۔
اسلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار اور عدل و انصاف سے متاثر ہو کر پھیلا ہے۔ دنیا نے پہلی بار یہ نظارہ دیکھا کہ صحابہ خود بھوکے رہتے تھے مگر قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ اسلامی تاریخ میں جن جنگوں کا ذکر ملتا ہے وہ سب دفاعی جنگ ہیں۔ اقدامی نہیں۔ جب مکہ کے لوگوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو حد سے زیادہ ستایا اور آپ پر ظلم کی انتہا کردی تو آپ نے اپنا دفاع کرنے کا حکم دیا۔تاریخ شاہد ہے کہ صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں اسلام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا ہے اور ان جنگوں میں بھی جو دفاعی تھی ، اقدامی نہیں اس میں آپ نے یہ ہدایت دی کہ عورتوں اور بچوں کو نہ مارا جائے۔ رات میں حملہ نہ کیا جائے، مرے ہوئے انسانوں کا مثلہ نہ بنایا جائے جو قیدی ہوں ان کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے۔کمال کی بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و ہمدردی صرف انسانو ں تک ہی محدود نہیں تھی۔ بلکہ آپ نے جانوروں چرند پرند حتیٰ کہ درختوں تک کا خیال رکھا۔ آپ نے اخلاق و محبت سے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی۔ پھر اسی سماج کے لوگ جو آپ کے جانی دشمن تھے، آپ پر فریفتہ ہو گئے۔
آپ پر جان نچھاور کرنے لگے اور کیوں نہ ہو؟ آپ اپنے ساتھیوں، پڑوسیوں، مہمانوں حتیٰ کہ عام انسانوں کے ساتھ ایسا برتائو کرتے او ران کی اتنی فکر کرتے جتنی فکر خود اپنی کرتے۔ چنانچہ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر کوئی مسلمان مر جائے تو اس کا چھوڑا ہوا مال اس کے وارثوں کا ہے او رجو وہ قرض چھوڑا ہے اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے۔ بھلا یہ کون کر سکتا ہے؟ واقعی آپ ساری انسانیت کے لئے رحمت للعالمین تھے۔ آپ نے ایسا انسانی معاشرہ تشکیل دیا جس کی نظیر تاریخ نہیں پیش کر سکتی۔ ربیع الاول کا یہی مبارک مہینہ ہے جس میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی اور اسی مبارک مہینے میں آپ نے اپنا کام مکمل فرماکر وفات پائی۔ آپ کی ولادت انسانیت کے لئے مینارہ نور بنی۔ اور آپ کی بعثت سے انسانی معاشرہ رشد و ہدایت کی راہ پر گامزن ہوا۔ اور اس کا کھویا ہوا وقار بحال ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ کی بعثت کے نتیجہ میں ہی ہمیں دنیا کے سب سے بہترین اور ترقی پسند مذہب اسلام کا ظہور ہوا اور آپ ہی کے طفیل میںہم دنیا کی بہترین قوم کا حصہ ہیں۔ یہ قدرت کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے ہمیں میلاد النبی کا جشن منانے کے علاوہ ان کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا بھی عہد کرنا چاہئے۔