تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری ربیع الاول کے متبرک ماہ میں ہمارے آقا ۖ دنیا میں تشریف لائے اور حق کا پیغام دیا جس نے پوری دنیا میں نور کی کرنیں بکھیر دیں ہم ایمان لائے مسلمان کہلائے تو پھر ان کی ولادت کے دن کو مناتے ہوئے سچے دل سے وعدہ کرنا چاہیے کہ ہم آئندہ اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل کریں گے سچے دین اسلام کو لاکر جو حضورۖ نے فرمایا ان پر من و عن عمل شروع کر دیں گے۔
قبیح برائیاں مثلاً جھوٹ، مکر وفریب، ہیرا پھیری ،چوری چکاری ،سینہ زوری ،کم تو لنا ،ملاوٹ کرنا ،ڈاکہ زنی ،اغوا برائے تاوان ،دہشت گردی ،قتل وغارت گری جعلی خوراک تیار کرنا رشوت ستانی سود خوری کا خاتمہ کرکے باہمی شیر و شکر ہو جائیں گے۔اسی ماہ میں ہم صد ق دل سے یہ بھی وعدہ کریں کہ فرقہ واریت، علاقائیت، لسانیت ،نیشنلزم، سوشلزم کیمونزم ،سیکولرازم کے بتوں توڑ ڈالیں گے اور امت واحدہ بن کر پوری ملت اسلامیہ کو متحد کرکے خدا کی زمین پر خدا کی حکومت قائم کرنے کی جدو جہد کرکے اسلامی ممالک کو صحیح معنوں میں مساوات محمدی ۖ کے مطابق اسلامی فلاحی مملکت بنائیں گے اور باہمی شیر وشکر ہو کر جہاں بھی مسلمانوں پر سامراجی یہودی سامراج ظلم و تشدد کر رہا ہے وہاں محمد بن قاسم کی طرح اس کی مدد کو پہنچیں گے اور انھیں بیرونی سامراجی آقائوں ،اسرائیلیوں و دیگر فرقہ پرست اغیاروں کی غلامی سے نجات دلائیں گے۔باکردار بااصو ل کرپشن سے پاک افراد کو ہی آئندہ اپنے اپنے ممالک میںبرسر اقتدار لائیں گے متبرک ماہ میں میلاد کی محفلیں سجاتے ہوئے ہم یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم تمام اسلامی ممالک کے بیت المالوں کو سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی دست برد سے دور رکھیں گے تاکہ لوٹ کھسوٹ کا کاروبار مکمل ختم ہو جائے۔
غرباء و مساکین لاچار ،بے سہارا افرادکے وظائف جاری کرکے انھیں معاشی بد حالی سے نجات دلائیں گے ہم سچے دل سے یہ بھی وعدہ کریں کہ اپنا مسلک چھوڑیں گے نہیں اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑیں گے نہیں تاکہ خواہ مخواہ دلوں میں کدورتیںجمع ہوکر آپس میں اختلافات نہ بڑھنے پائیں بلکہ مستقل ختم ہو جائیں ۔ہم اپنی اپنی حکومتوں اور حکمرانوں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی اس متبرک ماہ کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے اور میلاد رسول کی عقیدت کو دل میں خصوصی جگہ دیتے ہوئے اسلامی تعلیمات و احکامات کی روشنی میں انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کریں گے نہ خود کرپشن کریں گے اور نہ ہی عوام بشمول صنعتکاروں ،دوکانداروں تاجروں کو کرنے دیں گے۔
Eid Milad un Nabi
غریبوں بالخصوص کسانوں مزدوروں محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہی ان کی اولین ترجیح ہو گی۔ہمیں اس متبرک ماہ میں جلسے جلوسوں میلاد کی محفلوں میں ایسے نعرے لگانے چاہئیں۔ جو کہ اتحاد و تفاق پر مبنی ہوں جن سے پیار و محبت یکجہتی و یگانگت ابھرتی ہو جو کہ اس ماہ میں زیادہ عبادت ،درود پاک کی کثرت محافل دینیہ سے بھی حاصل ہوگی اسی ماہ میں جلسہ جلسوں کے ذیعے نوجوان نسل کے سامنے سیرت النبی کے روشن پہلوئوں کو اجاگر کرکے اور آپ ۖ کی تعلیمات کو عام کرکے ان کی کردار سازی ہوسکتی ہے مگر عموماً ہماری حقیقی و مذہبی انتہائی عقیدت و احترام سے منائی جانے والی یہ خوشی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہے اور ہم آمد رسول کے ماہ میں نمود و نمائش ،لاکھوں گز کے کپڑے ٹانگنے اور بازاروںمیں روشنیاں لگانے تک محدود کیے ہوئے ہیں اس طرح سے ہمارے ان اعمال سے مذہبی معاشی یا سما جی تقاضے تو پورے نہیں ہوتے ہماری کی ہوئی چراغاں سے کسی کے دل میں یا زندگی میں اجالا تو نہیں ہوتا بلکہ وہ ایسی رسومات ادا کرکے سمجھ لیتے ہیں کہ بس اب سارا سال جو مرضی کرتے پھروہم نے تو ڈھیروں ثواب کما لیا ہے۔
شاہراہوں پر لٹکائے گئے لاکھوں بینرز سے سردی میں ٹھٹرتے غریبوں کے بچوں کانپتے جسم والے بوڑھوں کو تو کوئی حرارت حاصل نہیں ہو پاتی۔کاش کسی غریب کی گھر میں بیٹھی معصوم بیٹی کی شادی پر یہ سارا تزک و احتشام ہو جاتاتو اصل خوشی اور ڈھیروں ثواب حاصل ہوتا۔ہم اسلام سے عشق ومحبت کا دم تو بھرتے ہیں مگر ہماری زندگیاں عمل سے خالی رہ جاتی ہیں مذاکرے جلسے جلوس درود و سلام کی محفلیں بلا شبہ ہماری محبتوں کو اجاگر کرتے اور اس کے آئینہ دار ہیں لیکن اگر ہم عملی زندگی میںاسوۂ حسنہ پر عمل نہیں کریں گے تو اسلام کی برکات اور نوازشات سے محروم رہ جائیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مہینہ برکتوں والا مہینہ ہے اور آقائے دو جہاں ۖ اس ماہ میں تشریف لائے ہمیں اس میں عہد کرنا ہو گا کہ ہم حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر بھی انتہائی جوش و خروش سے توجہ دیں گے۔امن و آشتی کے اس دین برحق کی حدود میں بد اعمالی بد امنی ممنوع ہے ہمیں اس کے ذریں اصولوں پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو خدمت انسانیت کے حوالے سے اسلام کا حقیقی چہرہ آشکارہ کرکے اسے مسخ ہونے سے محفوظ رکھنا ہو گاتاکہ اغیار نے ہم پر جو دہشت گردی کا الزام لگا رکھا ہے وہ دھل سکے اگر ہم اس پر عمل در آمد نہیں کرتے تو پھر یہ ساری محبتیں اور عقیدتیں ہمارے عمل کے بغیر بے معنی ہیں۔
بازاروں اور سڑکوں کی سجاوٹیں ختم ہوتے ہی دو بارہ گاہکوں سے لوٹ کھسوٹ ملاوٹ اور غیر میعاری اشیاء کی فروختگی شروع ہوجاتی ہے گاہکوں کومزید مہنگی اشیاء بیچ کر غالباً سجاوٹوں اور بینروں کا خرچہ بھی نکالنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں وعدے اورنعرے تو نبی اکرم ۖ کی تابعداری و فرمانبرداری کے لگاتے ہیں مگر عملاً تمام کام آپ ۖ کی مرضی کے خلاف کرنا ہماری منافقت کو ظاہر کرتا ہے۔جھوٹ فریب اور ہیرا پھیری سے ہم باز نہیں رہتے بیورو کریسی اور حکمران بڑی بڑی محافل اور کانفرنسیں کرکے خزانہ لوٹنے اور مال لوٹنے کا کاروبار اسی طرح جاری رکھتے ہیں یہ سب منافقتیں نہیں تو اور کیا ہیں؟شام کو خون میں نہلایا جارہا ہے کشمیری زندہ درگور ہورہے ہیں پانچ ماہ سے کرفیو جاری ہے مگر ہم بہ حیثیت مسلمان اور آقائے دو جہاں کے پیروکار ہونے کے دعوے دار اس سلسلہ میں خود اور حکمران چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیںظالم کا ہاتھ پکڑنا اور مظلوم کی امداد کرنا بھی نبیۖ کے احکام میں شامل ہے تو پھر ہم اسے کیوں پورا نہیں کر رہے۔