ماہ ربیع الاول میں عموماً اور بارہ ربیع الاول کو خصوصاً، آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کی خوشی میں پورے عالمِ اسلام میں محافلِ میلاد منعقد کی جاتی ہیں اور میلا دُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منائی جاتی ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانا، جائز و مستحب اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامت ہے اور اس کی اصل قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ ذکرِمیلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکمِ قرآنی بھی ہے اور سنتِ الٰہی بھی: ارشادِ باری تعالیٰ ہوا! وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ ” اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ”۔ (ابراھیم:٥)
امام المفسرین سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک ایامُ اللہ سے مراد وہ دن ہیں جن میں رب تعالیٰ کی کسی نعمت کانزول ہوا ہو: ”ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ومعراج کے دن ہیں، ان کی یاد قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے”۔ (تفسیرخزائن العرفان) بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت نبی کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ ہے۔ ارشاد ہوا: ”بیشک اللہ کابڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انھِیں میں سے ایک رسول بھیجا” (اٰل عمران:١٦٤) آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیںکہ جن کے ملنے پر رب تعالیٰ نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے۔ ارشاد ہوا: ”(اے حبیب!) تم فرماؤ،اللہ کے فضل اور اس کی رحمت (کے نزول)کے سبب انہیں چاہیے کہ خوشی منائیں، وہ (خوشی منانا) اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں”۔ (سورہ یونس:٥٨) اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، سورة الاحزاب آیت ٤٧ میں آپ کو” فضل” اور سورة الانبیاء آیت ١٠٧ میں” رحمت” فرمایا گیا ہے ۔ ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا:
”اور اپنے رب کی نعمت کاخوب چرچا کرو” (الضحیٰ:١١، کنزالایمان) خلاصہ یہ ہے کہ عیدِمیلاد ُ النبی ۖمنانا لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے دن یاد دلانا بھی ہے، اسکی نعمتِ عظمیٰ کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمتِ کبریٰ کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن وحدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکرِ میلادِ مصطفی ۖ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔
سورہ اٰل عمران کی آیت ٨١ ملاحظہ کیجیے۔ ربِ ذوالجلال نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیبِ لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا ذکریوں فرمایا۔ ارشاد ہوا:
”اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے انکا عہد لیا، جو میں تم کو کتاب اورحکمت دوں اور پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا”۔ (کنزالایمان از اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ) یہ سب سے پہلی محفلِ میلاد تھی جسے اللہ تعالیٰ نے منعقد فرمایا اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے۔ اسی طرح رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت موسیٰ، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی ولادت کے تذکرے بھی فرمائے ہیں اور حضور ۖ کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر تو قرآن کریم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں موجود ہے۔
ذکرِمیلاد،رسولِ کریم ۖ کی سنت ہے: ”نبی کریم ۖ کے میلا د پاک اور فضائل ومناقب کا ذکر خود رحمتِ عالم ۖ کی سنت بھی ہے۔مستدرک للحاکم اورمشکوٰة شریف باب فضائلِ سید المرسلین میں یہ حدیث موجود ہے کہ ”میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین (آخری نبی) لکھا ہوا تھا جبکہ آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں گندھے ہوئے تھے، میں تمہیں اپنے معاملے کی ابتدا بتاتا ہوں کہ میں ابراھیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے”۔
مشکوٰة کے اسی باب میں ترمذی اور دارمی کے حوالے سے حدیث پاک موجود ہے کہ صحابہ کرام بعض انبیاء کرام کے فضائل کا ذکر کر رہے تھے کہ اس محفل میں آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ نے اپنے فضائل خود بیان فرمائے جن میں سے ایک یہ ہے : اَلَا وَاَنَا حَبِیبُ اللّٰہ ”خبردار رہو! میںاللہ کا حبیب ہوں”۔
سیدِ عالم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک زمانہ کی ایک اور محفلِ میلاد جو مسجدِ نبوی میں منعقد ہوئی اس میں آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر شریف پر جلوہ افروز ہو کر اپنا ذکرِ ولادت اور اپنے فضائل بیان فرمائے۔ (جامع ترمذی ج ٢ ص ٢٠١) اس طرح کی کئی احادیث صحاح سِتہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،صحابہ کرام کی سنت ہے: محفلِ میلاد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ِ باسعادت ، اُس وقت کے معجزات اور آپ کے فضائل و خصائص کا تذکرہ کیا جاتا ہے خواہ نثر کی صورت میں ہو یامنظوم۔ ایسی بیشمار احادیث ہیں جن میں صحابہ کرام نے آقا ومولیٰ ۖ کے میلاد، معجزات اور فضائل و خصائل بیان کیے ہیں۔ اگر یہ باتیں ناجائز ہوتیں تو صحابہ کرام انہیں کبھی روایت نہ فرماتے اور نہ ہی محدثین انہیں اپنی کتب میں نقل کرتے۔ نامور محدثین امام ابن جوزی، امام سخاوی، امام ابن کثیر ،امام سیوطی اور محدث علی قاری رحمہم اللہ تعالیٰ نے میلادُ النبی ۖ کے عنوان پر باقاعدہ کتابیں تحریر کیں جبکہ امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے تو جامع ترمذی میں ایک باب کا عنوان ہی یہ لکھا: باب مَا جَاء َفِی مِیلادِ النَبِی ۖ ۔ رسولِ معظم نورِ مجسم ۖ کے مبارک زمانہ میں صحابہ کرام کی چند محافلِ میلاد کا ذکر ملاحظہ فرمائیے جن میں نعتیں بھی پڑھی گئیں۔ حضور ۖ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کیلئے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر نعت پڑھی، پھر آپ نے انکے لیے دعا فرمائی(صحیح بخاری ج ١ ص ٦٥) خاص نعمت کے نزول کے دن کو عید بنانا نبی کا طریقہ ہے: بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں لہٰذا تیسری عید حرام ہے (معاذاللہ) ۔ یہ نظریہ باطل ہے۔ قرآن کریم سے راہنمائی لیجیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”عیسیٰ بن مریم نے عرض کی، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک (کھانے کا) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی”۔ (المائدہ:١١٤)
”یعنی ہم اسکے نزول کے دن کو عید بنائیں، اسکی تعظیم کریں، خوشیاں منائیں، تیری عبادت کریں، شکر بجا لائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں منانا، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے اور کچھ شک نہیں کہ سیدِعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اسلئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکرِ الٰہی بجا لانا اور اظہارِ فرح اورسُرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے”۔ (تفسیرخزائن العرفان)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت اَلْیَومَ اَکمَلْتُ لکُم دِینَکُم تلاوت فرمائی تو ایک یہودی نے کہا ، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں؛ عیدِ جمعہ اور عیدِ عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہو گیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا ،جائز بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ مزید یہ کہ اسلام میں صرف دو عیدیں نہیں بلکہ کئی عیدیں ہیں البتہ عیدالفطر اور عیدالا ضحی کی شہرت اس لیے زیادہ ہے کہ اہلِ کتاب کے دو تہوار(نیروز اور مہرگان) تھے جن سے بہتر یہ دو تہوار یعنی عیدالفطر اور عید الاضحی مسلمانوں کو عطا ہوئے۔ (مشکوٰة)
ایک اور حدیث پاک میں ارشاد ہوا: ”عرفہ کا دن، قربانی کا دن اور تشریق کے دن ہمارے عید کے دن ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں”۔ (مستدرک للحاکم ج١ص٦٠٠) چونکہ عیدجمعہ، عید عرفہ، عیدالفطر اور عید الاضحی حبیبِ کبریاۖ ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یومِ میلاد بدرجہ اولیٰ عید قرار پایا۔ عیدِ میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں
کہ اسی عید کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں میلاد النبی کے دن کو عید کہنا محدثین کا طریقہ ہے: صحیح بخاری کے شارح، امام قسطلانی رحمہ اللہ(المتوفی ٩٢٣ ھ) ماہ ربیع الاول میں محافلِ میلاد کے انعقاد اور ان کی برکات کا ذکر کر کے لکھتے ہیں: فرحم اللہ امرا اتخذ لیالی شھر مولدہ المبارک اعیاداً فیکون اشد علة علی من فی قلبہ مرض و عناد۔
Allah
” اللہ تعالیٰ ہر اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہِ میلاد کی راتوں کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض وعناد ہے”۔(مواہب الدنیہ ج١ ص ٢٧) میلا دکی خوشی منانے پر کافر کے عذاب میں کمی: صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابولہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں بری حالت میں دیکھا اور پوچھا، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابولہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اسکے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابولہب جیسے کافر کا یہ حال ہے کہ اسکے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے حالانکہ اسکی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا جو میلاد کی خوشی میں حضور کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے۔ قسم ہے میری عمر کی، اسکی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے اپنے فضل وکرم سے جنتِ نعیم میں داخل فرما دے”۔ (مَوَاہِبُ اللَدُنِّیہ ج١ ص ٢٧، مطبوعہ مصر) خالقِ کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشنِ میلاد کیسے منایا؟ سیرتِ حلبیہ ج١ ص ٧٨ اور خصائصِ کبریٰ ج ١ ص ٤٧ پر یہ روایت موجود ہے کہ: ”جس سال نورِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح ونصرت، تروتازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہلِ قریش اس سے قبل معاشی بدحالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال ربِ کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لَد گئے اور اہل قریش خوشحال ہو گئے”۔ اہلسنّت اسی مناسبت سے میلادِمصطفےۖ کی خوشی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔عیدِ میلاد النبی ۖ کے موقع پر شمع ِ رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں، اسکی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا ومولیٰ ۖ کا ارشادِ گرامی ہے: ”میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ اُن سے ایسا نور نکلا جس سے ملک شام کے محلات روشن ہو گئے”۔ (مشکوٰة) ہم تو عیدِمیلاد کی خوشی میں اپنے گھروں اور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں، خالقِ کائنات نے نہ صرف ساری کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو جھالریں بنا کر زمین کے قریب کر دیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”جب آپ ۖ کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہو گیا اور ستارے زمین کے اتنے قریب آ گئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں”۔ (سیرتِ حلبیہ ج١ ص ٩٤، خصائصِ کبریٰ ج١ ص ٤٠، زرقانی ج١ ص١١٦) سَیِدَتُنا آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، ”میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرا رہا تھا”۔ (سیرتِ حلبیہ ج١ ص ١٠٩) اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرہء رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا ومولیٰ ۖ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیانِ مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے اور خُدام گلیوں میں پھیل گئے؛ یہ سب با آوازِ بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یارسول اللہ ، یامحمد یارسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (صحیح مسلم جلد دوم باب الھجرة) محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا میلاد کیسے منایا؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود اپنے میلاد کا اور اپنے فضائل کا ذکر فرمانا پہلے مذکور ہو چکا۔صحیح مسلم میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا ومولیٰ ۖ ہر پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ آپ سے اسکے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا! ذاک یوم فیہ ولدت وفیہ انزل ”اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی”۔ محدثین فرماتے ہیں کہ آپ نے ہر پیر کے دن روزہ رکھ کر اپنا میلاد منایا اور اپنے میلاد کے دن کی عظمت کو ظاہر کیا اور عبادت کے ذریعہ رب کریم کا شکر ادا کیا۔ ١٢ ربیع الاول ہی تاریخِ ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ، صحیح اسناد کے ساتھ حضرت جابر اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ عام الفیل میں بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ) مشہورمفسرحافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے بھی انہی صحابہ کرام سے روایت کیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ (سیرتِ ابن کثیر،ج١ ص١٩٩) شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تحقیق یہی ہے کہ ”بارہ ربیع الاول کا قول مشہور اور جمہور کا ہے، اہلِ مکہ کا عمل بھی اس پر گواہ ہے کیونکہ وہ اسی رات نبی کریم ۖ کی جائے ولادت کی زیارت کرتے ہیں اور محافلِ میلاد کا انعقاد کرتے ہیں”۔ (مدارج النبوة ج٢ ص١٤) محافلِ میلاد کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے: جشنِ عیدِ میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیشِ خدمت ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ محافلِ میلاد کا سلسلہ عالمِ اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے۔ محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی٥٩٧ ھ) فرماتے ہیں: ” مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، یمن، مصر، شام اور تمام عالمِ اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر محافلِ میلاد کا انعقاد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجرِ عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں”۔ (المیلاد النبوی ص ٥٨) شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں : ”(الہٰی!) میرا ایک عمل تیری ذات پاک کی عنایت کی وجہ سے بہت شاندار ہے اور وہ یہ ہے کہ میں مجلسِ میلاد میں کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت عاجزی ، محبت وخلوص سے تیرے حبیب ۖ پر درود بھیجتا ہوں”۔ (اخبارُ الاخیار ص ٦٢٤) امام قسطلانی رحمہ اللہ (م ٩٢٣ ھ) فرماتے ہیں! ”ربیع الاول میں تمام اہلِ اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفلِ میلاد کی یہ برکت مجرب ہے کہ اسکی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے اور ہر مراد جلدپوری ہوتی ہے”۔ (مواہب الدنیہ ج١ ص ٢٧) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہوا، میں نے وہی چنے تقسیم کردیے۔ رات کو خواب میں آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا تو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں”(الدرُ الثمین ص ٨) اکابرینِ دیوبند کے پیر ومرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ نے اپنا معمول یوں بیان کیا ہے: ”فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفلِ مولود میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہء برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف ولذت پاتا ہوں”۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ ص ٥) ان دلائل و براہین سے ثابت ہو گیا کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل منعقد کرنے اور میلاد کا جشن منانے کا سلسلہ امتِ مسلمہ میں صدیوں سے جاری ہے اور اسے بدعت و حرام کہنے والے دراصل خود بدعتی وگمراہ ہیں۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی فضیلت:
امام ابن جوزی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بوقتِ ولادت ایک ہاتفِ غیبی کی آواز سنی جو یہ کہہ رہا تھا، ”ہر وہ شخص جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے باعث خوش ہوا، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ رہنے کے لیے حجاب اور ڈھال بنائی۔ جس نے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے کے لیے ایک درہم خرچ کیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے شافع اور مشفع ہونگے اور اللہ تعالیٰ ہر درہم کے بدلے دس گنا عطا فرمائیگا”۔(مولدُ العروس (مترجم) صفحہ ٤٩) نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیں