97 ھ میں اسماعیل کے گھر پیدا ہونے والی چوتھی بیٹی کا نام رابعہ رکھا گیا کیونکہ عربی میں رابعہ چوتھی کو کہا جاتا ہے ‘ آپ کی پیدائش پر محبوب خدا ۖ والد اسماعیل کے خواب میں آکر باپ کو عظیم المرتب بیٹی کی بشارت دے گئے تھے کہ یہ اپنے وقت کی بہت بڑی ولیہ ہو گی جس کی وجہ سے ایک ہزار انسان بخشے جائیں گے ‘ رابعہ اپنی تین بڑی بہنوں کے ساتھ زندگی کے زینے پر چڑھنا شروع ہو گئی ‘ غیرت مند نیک باپ غربت اور پریشانی میں بھی غیرت اور وقار کے ساتھ اپنی بچیوں کی پرورش کر رہا تھا ایک دن اسماعیل کو ایک واقعے نے چونکا دیا ‘ اُس رات سارا خاندان کھانے کے لیے دستر خوان پر بیٹھا تھا سارے گھروالے تیزی سے کھانے پر ہاتھ صاف کر رہے تھے لیکن رابعہ کھانے کی رغبت اورجلد بازی سے بے خبر خامو شی سے کھانے والوں کی شکلیں دیکھ رہی تھی ‘ کھانے کی رغبت میں کسی کو کسی کی کو ئی خبر نہ تھی لیکن باپ آقا کریم ۖ کے خواب کے بعد کہ تمہاری یہ بیٹی بہت نیک ہوگی رابعہ پر خاص تو جہ دیا کر تا تھا ‘ اُس رات کھانے پر بھی باپ رابعہ کی محویت اور خاموشی غور سے دیکھ رہا تھا کہ رابعہ کو کھانے کی کو ئی رغبت نہ تھی ‘ بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر باپ سے رہا نہ گیا اور پو چھا بیٹی تم کھانا کیوں نہیں کھا رہی تو پیدائشی قلندرہ ولیہ نے معرفت میں ڈوبا فقرہ بولا ‘ باوا جان خدا جانے یہ کھانا حلال ہے یا مشتبہ ‘ تو باپ بولا باوا کی راحت تو اچھی طرح جانتی ہے کہ میں نے ہمیشہ حرام حلال کی تمیز کو اولیت دی ہے اگر کبھی حلال رزق نہ پا سکا تو فاقے کو ترجیح دی ہے تو پیدائشی ولیہ نے کیا خوب کہا ‘ باوا جان کیا ہمیں اِس دنیا میں بھوک پر صبر نہیں کر لینا چاہیے تا کہ ہمیں روز محشر جہنم کی کھولتی ہو ئی آگ پر صبر نہ کر نا پڑے ‘ بچپن سے ہی رابعہ کی فطری عبادت صبر شکر اُس پر غالب تھا۔
بچپن سے ہی جب بچیوں کے گڈیو ں کھلونوں سے کھیلنے کے دن ہو تے ہیں اُسے یہ فکررہتی تھی کہ خدا کی رضا کیسے تلاش کر نی ہے اُس کی حدود کہاں تک ہیں اور ان کو کسی بھی حال میںکراس نہیں کر نا ‘ اپنے وقت کے عظیم نیک پارسا باپ کی زیر نگرانی چند سال ہی رابعہ نے گزارے تھے کہ باپ کا عظیم سایہ شفقت سر سے اُٹھ گیا اور پھر ماں کا سایہ بھی خدا نے اُٹھا لیا ‘ اب آسمان کے نیچے چاروں بہنیں بے یارومددگارتھیں اُس دنیا میں جس کی ہرنکڑ ہر موڑ پر بھیڑئیے شکاری کی طرح نشانہ لگا کر بیٹھے تھے ‘ کوئی شکار سامنے آیا نہیں اور اِن بھیڑئیے شکاریوں نے اُس کو دبو چا نہیں۔
اِیسے بے رحم سفاک معاشرے میں چار بہنیں بے یارو مددگار کٹی پتنگ کی طرح زندگی کے دن محنت مزدوری سے پورے کر رہی تھیں جن کا بظاہر کو ئی کفیل نگران نہ تھا اِس بے چارگی میں خدا کی ایک اور آزمائش اہل فقر پر وارد ہو گئی ‘ شہر بصرہ پر قحط آفت کی طرح نازل ہو گیاکاروبار زندگی ختم ہو گئے ‘ مزدوری ختم ‘ کام ختم ‘ نوخیز لڑکیوں کو اپنی زندگی کا وجود برقرار رکھنے کے لالے پڑ گئے ‘ قحط کی شدت سے لوگ خو نی رشتوں کو بھولنے لگے ‘ اپنے شکم کی آگ بجھانے کے لیے ایک دوسرے کو ارزاں نرخوں پر بیچنے لگے بچے ماں باپ پر بوجھ بن گئے اور بوڑھے ماں باپ اولاد پر گراں گزرنے لگے ‘ عجیب نفسا نفسی کا عا لم کہ ماں باپ اولادوں سے دور بھاگنے لگے ‘ بھائیوں سے بہنوںنے منہ پھیر لیے ‘ دوستوں نے ایک دوسرے کو پہچاننے سے انکار کر دیا ‘ بھوک کا درندہ انسانوں کو نگلنے لگا بھو ک کی شدت سے تمام احساسات انسانی رشتے جذبات عقائد و نظریات بھوک کی خوراک بننے لگے ‘ بھوک کی شدت سے لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے لیکن بھیک دیتا کون ‘ دینے والے کے پاس تو خود کچھ نہیں تھا اِن ہولناک حالات میں رابعہ اور اُس کی تین نو خیز بہنیں پتھرائی آنکھوں سے لوگوں کو دیکھتی رہتیں لیکن اُن پر نظرِ رحم ڈالنے والا کوئی بھی نہ تھا چاروں بہنیں اب آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ وہی اُن پر کرم کر دے اِسی وقت بصرہ کا مشہور تاجر عتیق ادھر سے گزرا تو فاقے میں غرق بہنوں نے دست سوال دراز کر دیا ‘ خدا کے لیے ہمیں کھانے کے چند نوالے عطا کر دو ورنہ ہمارے جسم موت کے غار میں اتر جائیں گے سانسوں اور جسموں کا تعلق قائم رکھنے کے لیے ہمیں چند سوکھے ٹکڑے دے دو۔
تاجر نے سب سے چھوٹی بہن کو دیکھا جو دنیا سے بے خبر خاموشی سے بیٹھی تھی اور بولا کیا تجھے بھوک نہیں ہے تو نقاہت میں ڈوبی آواز میں بولی ‘ بہت بھو ک ہے تو تاجر بولا پھرتم نے روٹی کیوں نہیں مانگی تو رابعہ نے بہت پراسرار جواب دیا جس سے مانگنا چاہیے اُسی سے تو مانگ رہی ہوں ‘ تاجر حیران ہو کر بولا جس سے مانگ رہی ہو اُس پر اگر اتنا یقین ہے تو اُس نے ابھی تک تجھے روٹی دی کیوں نہیں ‘ تو پیدائشی اور وقت کی بہت بڑی قلندرہ نے پر عزم چٹانوں جیسے لہجے میں کہا جب وقت آئے گا تو وہ بھی مل جائے گی ‘ تینوں بڑی بہنیں جو بھوک فاقے کی شدت سے بے حال تھیں بولیں یہ ہمارا اور تمہاراوقت برباد کرر ہی ہے آپ اِس کو خرید کر لے جائیں اِس کے بدلے ہمیں چند سکے یا کھانے کی چیزیں دے جائیں ‘ تاجر چھوٹی لڑکی کی باتوں سے متاثر ہو چکا تھا بولا یہ تو بہت عقل والی باتیں کر رہی ہے میں اِس کو ضرور خریدوں گا ‘ پھر چند سکوں کے عوض تاریخ انسانی کی سب سے بڑی قلندرہ مجاہدہ سوز عشق الٰہی کو خرید کر لے گیا تاجر نے پیسے دے کر لڑکی سے کہا چلو اب تم میری کنیز ہو ‘ میں نے تمہیں خرید لیا ہے پیدائشی صابر رابعہ خاموشی سے اٹھ کر تاجر کے ساتھ چل دی لیکن جاتے وقت جب وہ اپنی بہنوں کو سکے گنتے دیکھ رہی تھی تو آنکھوں میں ایک ہی سوال مچل رہا تھا کہ تم نے چند روٹیوں کی خاطر اپنی سگی بہن کو فروخت کر دیا لیکن بہنیں اپنی چھوٹی بہن کی آنکھوں میں لرزتے سوالوں سے بے خبر تھیں کہ اُن کے پیٹ کی آگ اب بجھ جائیگی۔
اِس طرح رابعہ اپنے خونی رشتوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی ‘ بعض روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ بھوک سے تنگ آکر چاروں بہنیں گھر سے کسی اور شہر کی طرف نکلیں تو راستے میں ایک دیوہیکل بندے نے رابعہ کو پکڑ لیا اور جاکر عتیق نامی تاجر کے ہاتھوں فروخت کر دیا ‘ اِس کے بعد تاریخ تینوں بہنوں کے حوالے سے خاموش ہے ‘ نوخیز نو عمر ہونے کے باوجود رابعہ اپنے مالک کے سارے کام محنت مشقت سے کرتی تاکہ مالک کو کسی بھی قسم کی شکایت نہ ہو اِسی محنت مزدوری میں رابعہ نوجوانی کی حدود میں داخل ہونا شروع ہو گئی ‘ بڑھتی عمر کے ساتھ ہی رابعہ کا ذوقِ عبادت بڑھتا جا رہا تھا سارا دن گھر اور مالک کے کام کر تی ‘ ساری ساری رات خدا کی عبادت کر تی ‘ زمانہ طفولیت میں ہی رابعہ کو ایک زرخیز لونڈی کنیز کی حیثیت میں زندگی گزارنا پڑی ‘ دن میں کام رات کو عبادت رابعہ کی صحت بہت کمزور ہو گئی تو ایک دن آقا نے پوچھا کیا بات ہے تم بیمار ہو کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ تو رابعہ نے کہا آقا آپ کو میرے کام یا مجھ سے شکایت ہے تو مالک بولا نہیں مجھے تم سے تمہارے کام سے شکایت نہیں لیکن تم اپنی صحت کا بھی خیال رکھا کرو’ رابعہ نے مالک کے سامنے سر جھکا دیا مگر اُس کے معمولات میں کسی بھی قسم کی کو ئی تبدیلی نہ آئی ‘ دن کے اجالے میں وہ اپنے دنیا وی مالک کی خدمت کرتی ‘ رات کے اندھیروں میں خالق حقیقی کے سامنے سجد ہ ریز ہو کر اُس کی حمد و ثناء کرتی۔
بعض اوقات مالک رابعہ سے اتنا کام لیتا کہ رابعہ کی بہت ساری نمازیں قضا ہو جاتیں ‘ رات کو سجدے میں سر رکھ کر خدا سے استغفار کر تی ‘ اب رابعہ ایام جوانی میں داخل ہو چکی ایک دن کنویں سے پانی لا رہی تھی ‘ راستے میں ایک بد معاش آدمی آپ کے پیچھے پڑ گیا آپ نے اُس سے عزت بچانے کے لیے اپنی رفتار تیز کر دی مگر وہ پھر سامنے آگیا ‘ رابعہ شرم و حیا کا پیکر اِس خوف سے کہ نا محرم کی نظر اُس پر اور اُس کی عزت پر ہے ‘ شدت خوف سے گر پڑیں اور بے ہوش ہو گئیں گر نے سے آپ کا ہا تھ ٹوٹ گیا آپ کو زخمی دیکھ کر بد معاش بھاگ گیا ‘ رابعہ درد کی شدت سے بے حال تھیں مگر اِس درد اوردکھ کو بھی خداکی رضا سمجھا اورزبان پر شکوے کا ایک لفظ بھی نہ لائیں ‘ اُس وقت غیب سے آواز آئی اے صبر و شکر کا پیکر رابعہ ایک دن تمہیں وہ مقام حاصل ہو گا کہ عقرب فرشتے تجھ پر رشک کریں گے ‘ اِس آواز پر آپ اپنے زخمی ہاتھ کی درد کو بھول گئیں اور بار بار اُس ٹوٹے ہاتھ کو چومنے لگیں کہ اُس درد کی وجہ سے خدا اُس سے ہم کلام ہوا ہے ‘ گھر جا کر اگلے دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھا ‘ سجدے میں اپنے وقت کی شب بیدار کنیز عارفہ ایک ہی بات کر رہی تھی کہ میں ہر حال میں تیری ہی رضا چاہتی ہوں ‘ تو مجھے جس بھی حال میں رکھے گا میں تیرا گلہ نہیں کروں گی۔