نسل پرستوں کی مقبولیت میں اضافہ، جرمنی کے لیے لمحہ فکریہ

AFD

AFD

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں اسلام اور امیگریشن مخالف پارٹی دو مشرقی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں دوسری پوزیشن پر آگئی ہے۔ اے ایف ڈی پارٹی کا کہنا ہے کہ اُس کی کامیابی وفاق میں چانسلر میرکل کی مخلوط حکومت سے چھُٹکارا پانے کی شروعات ہے۔

انتخابی نتائج کے مطابق ریاست سیکسنی میں اس جماعت کے ووٹوں میں تین گناہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور وہ چانسلر میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹس یونین (سی ڈی یو) کے بعد دوسری نمبر پر رہی۔ اسی طرح ریاست برانڈن برگ میں اس کی حمایت میں دوگنا اضافہ ہوا اور وہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے بعد دوسرے نمبر پر آگئی۔

ریاست سیکسنی تین دہائیوں سے چانسلر میرکل کی سی ڈی یو پارٹی کا گڑھ رہی ہے جبکہ ریاست برانڈن برگ میں ایس پی ڈی نوے کی دہائی سے برسرِ اقتدار رہی ہے۔ دونوں پرانی جماعتیں وفاق میں حکومتی اتحادی ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کو قائم ہوئے صرف چھ سال ہوئے ہیں۔ قوم پرستی کی دعویدار یہ جماعت خود کو روایتی پارٹیوں کے مقابلے میں حقیقی عوامی متبادل کے طور پر پیش کررہی ہے۔

مرکزی پارلیمان میں اے ایف ڈی پارٹی کی رہنما ایلس وائیڈل کا کہنا ہے کہ تازہ نتائج باقی پارٹیوں کے لیے واضع پیغام ہے کہ تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔

دیوارِ برلن کے انہدام اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے تقریباً تیس سال بعد مختلف حکومتوں نے ملک کے سابقہ مشرقی جرمنی میں کافی سرمایاکاری کی اور تعمیر و ترقی کے کام کیے۔ لیکن مبصرین کے نزدیک مشرقی جرمنی کے لوگوں میں آج بھی مغربی حصے کی نسبت احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ الیکشن سے پہلے ریاست سیکسنی میں ایک عوامی جائزے میں مختلف پارٹیوں سے وابستہ اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ خود کو مغربی جرمنوں کے مقابلے میں ‘دوسرے درجے‘ کے شہری تصور کرتے ہیں۔

اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

اے ایف ڈی پارٹی کے بارے میں خیال ہے کہ وہ معاشی و سیاسی بے چینی کو نسلی اور مذہبی رنگ دے کر اپنی مقبولیت بڑھا رہی ہے، جس میں اُس کا خاص نشانہ مسلم ممالک سے آنے والے پناہ گزین اور تارکین وطن رہے ہیں۔

لیکن ڈی ڈبلیو کی ایڈیٹراِن چیف اِنس پول کے مطابق آزادی مذہب یقینی بنانا اور جنگ اور نفرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو پناہ دینا جرمنی کے وہ اصول ہیں جن پر کبھی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اُن کے مطابق اے ایف ڈی کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

جرمنی وہ ملک ہے، جہاں دوسری عالمی جنگ اور اُس سے پہلے کمزور طبقات پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں کبھی اے ایف ڈی جیسی نسل پرست پارٹی بر سر اقتدار آ سکتی ہے؟

مبصرین کے نزدیک اِس پر جرمنی کی بڑی سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ کئی برسوں کی زبردست معاشی کامیابی کے باوجود بعض لوگوں میں بے چینی اور مایوسی کیوں پھیل رہی ہے؟ اور وہ کیوں روایتی پارٹیوں سے نالاں ہو کر اے ایف ڈی جیسی تنظیموں کی طرف دیکھنا شروع کر رہے ہیں۔