اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سانحہ ایف ایٹ کچہری ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد، چاروں چیف سیکریٹریز اور ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج ایسٹ اینڈ ویسٹ نے رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔
آئی جی اسلام آباد نے رپورٹ میں بتایا کہ ایف ایٹ کچہری پر 2 دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ چیف سیکریٹری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میرے خیال میں حملہ آوروں کی تعداد زیادہ تھی۔
ڈپٹی کمشنر نے ایف ایٹ کچہری واقعہ کی انکوائری کی جبکہ ایک سو چون گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے۔ سپریم کورٹ نے آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ عدالت عظمی نے آئی جی اسلام آباد کی رپورٹ نامکمل قرار دے دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ میں نہیں بتایا گیا کہ ضلع کچہری کا کوئی سیکورٹی پلان تھا یا نہیں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ حملہ آوروں کا پیچھا گیا کہ نہیں اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ حملہ آوروں کا راستہ روکنے کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے یا نہیں۔ چیف کمشنر کی رپورٹ میں حملہ آوروں کی تعداد نہیں بتائی گئی۔
سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو دو روز میں ایڈیشنل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حملہ آور کتنے تھے تو پولیس کیا کرے گی۔
چیف کمشنر اور آئی جی کی رپورٹ میں تضادات ہیں۔ سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو ملک بھر کی ضلع کچہریوں کے سیکورٹی اقدامات مزید سخت کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر اسلام آباد میں سیکورٹی کی یہ صورتحال ہے تو ملک کے دیگر حصوں میں کیا ہو گی حیران ہیں کہ آئی جی کے مطابق دہشت گردوں کی تعداد صرف دو تھی۔ سپریم کورٹ نے تمام سیاسی شخصیات کو ایف ایٹ کچہری واقعے پر زبان بندی کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اہم شخصیات کے بیانات کیس کی تفتیش کو متاثر کر سکتے ہیں۔ عدالت عظمی نے سیکریٹری داخلہ کو ایف ایٹ کچہری واقعے کی آزادانہ انکوائری کرانے کا حکم دے دیا اور کہا کہ انکوائری کمیٹی میں اسلام آباد پولیس کو شامل نہ کیا جائے۔ جاں بحق ہونے والے ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کے بھائی کرنل صفدر اور ریڈر خالد نون بھی عدالت میں پیش ہو گئے۔
ریڈر خالد نون نے عدالت کو بتایا کہ اے ایس پی اے آر عزیز انہیں اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک حراساں کرتا رہا اور کہا جاتا رہا کہ بیان دو، ورنہ تم پر 302 لگا دیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو کہا جا رہا ہے کہ وقوعے کے بارے میں کوئی خاص بیان دیں۔
گھبرائیں ناں کھل کر بتائیں۔ ریڈر خالد نون نے جواب دیا کہ انہیں کہا جا رہا ہے کہ یہ بیان دیں کہ عدالت کے اندر سے رفاقت اعوان کو گولی ماری جبکہ میں نے حملہ آوروں کو جج پر گولی مارتے دیکھا۔ رفاقت اعوان کے بھائی کرنل صفدر نے کہا کہ ریڈر کا بیان جھوٹ پر مبنی ہے۔
رفاقت اعوان کو کسی حملہ نے نہیں بلکہ چیبمر کے اندر سے گولی ماری گئی کسی حملہ آور نے باہر سے رفاقت اعوان کو گولی نہیں ماری۔ جج صاحب کے چیمبر میں چار گولیاں چلیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں مگر آپ عینی شاہد نہیں آپ لوگوں کے ایسے بیانات کیس کی تفتیش کو متاثر کر سکتے ہیں۔ معاون وکیل شیخ احسن الدین نے کہا کہ چودھری نثار کا بیان تفتیش کو متاثر کرنے کی کوشش ہے۔
وزیر داخلہ نے معاملے کا رخ موڑنے کی کوشش کی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کے اندر کے لوگوں کا دہشت گردوں کے ساتھ ملنے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے ایف ایٹ کچہری کی الگ الگ ایف آئی آر درج کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی ایف ایٹ کچہری سے متعلق بیان دے گا پولیس ریکارڈ تک لانے کی پابند ہو گی۔
عدالت عظمی نے حکم دیا کہ جسٹس شوکت عزیز کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی تحقیقاتی کمیٹی اپنا کام جاری رکھے اور سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کرے۔ سانحہ کچہری ازخود نوٹس کی سماعت سترہ مارچ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔