کیا راحیل شریف کو واپس بلایا جانا چاہیے؟

Raheel Sharif

Raheel Sharif

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی سیاستدانوں اور ماہرین نے سپریم کورٹ کے راحیل شریف کے لیے این او سی سے متعلق حکم کو سراہتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ سابق آرمی چیف کو واپس بلا کر یہ تاثر ختم کیا جائے کہ پاکستان دوسروں کی لڑائی میں فریق بنا ہوا ہے۔

پاکستانی سپریم کور ٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ جنرل راحیل شریف کو دیا گیا این او سی مؤثر نہیں ہے اور یہ کہ وفاقی کابینہ اس کی ایک ماہ کے اندر اندر منظوری دے ورنہ سابق آرمی چیف کو واپس آنا پڑے گا۔

قانونی ماہرین کے خیال میں ملکی وزارت دفاع اور جنرل راحیل شریف نے بظاہر سروس قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ آرمی قوانین پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اورمعروف قانون دان کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ راحیل شریف اور وزارت دفاع دونوں نے ہی ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے کہا، ’’راحیل شریف کا یہ فرض تھا کہ وہ پوچھیں کہ اس نوکر ی کی قانونی حیثیت کیا ہے جب کہ سیکرٹری دفاع کو کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ اس طرح کا کوئی این او سی جاری کرتے۔ راحیل شریف کے کیس میں تو وہ خود سعودی عرب پہلے چلے گئے تھے اور بعد میں انہوں نے این او سی منگوایا تھا۔ وزارت خارجہ اور خزانہ میں بھی کئی بیوروکریٹس اسی طرح بین الاقوامی اداروں میں ملازمتیں اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کے سینوں میں قومی راز ہوتے ہیں اور میرے خیال میں اس طرح کی نوکریوں پر پابندی ہونا چاہیے۔ جنرل راحیل کو بھی واپس بلایا جانا چاہیے تا کہ اس تاثر کو زائل کیا جا سکے کہ ہم کسی دوسرے کی جنگ کا حصہ ہیں۔‘‘

کئی ناقدین کے خیال میں پاکستان میں جرنیلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی اور راحیل شریف کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔ معروف قانون دان لطیف آفریدی کے خیال میں راحیل شریف نے سروس رولز کی خلاف ورزی کی ہے۔

پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بتایا ہے کہ راحیل شریف کو، جو گزشتہ برس نومبر تک پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز تھے، 39 مسلم ممالک کے اس فوجی اتحاد کی قیادت سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو سعودی عرب کی سربراہی میں اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں پائے جانے والے متعدد خونریز تنازعات کے حل میں مدد کی جا سکے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی کیونکہ پاکستان میں جرنیلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اور کوئی جرنیل اگر سعودی عرب کی خدمت کر رہا ہو، تو اس کے خلاف کارروائی کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس قدامت پرست عرب بادشاہت کا ہمارے ملک میں بہت اثر و رسوخ ہے۔ لیکن میرے ذاتی خیال میں راحیل شریف کو واپس بلا لینا چاہیے اور ہمیں سعودی عرب یا کسی اور ملک کے درمیان کسی تنازعے میں فریق نہیں بننا چاہیے۔‘‘

سیاست دانوں کے خیال میں جب سے راحیل شریف سعودی عرب گئے ہیں، پاکستان کے تعلقات کئی ممالک سے کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اکرم بلوچ کے خیال میں پاکستان کو راحیل شریف کو سعودی عرب بھیجنا ہی نہیں چاہیے تھا۔

انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’سعودی عرب کے یمن، شام اور ایران سے کشیدہ تعلقات چل رہے ہیں۔ بحرین میں اس کی مداخلت اس کی بدنامی کا باعث بنی جب کہ یمن میں اس کی بمباری نے بھی دنیا بھر میں اس کے خلاف نفرت پیدا کی۔ اس کے علاوہ ترکی سے بھی سعودی عرب کے تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ لیکن ہم سعودی اثر و رسوخ میں ہیں اور ان کی خدمت کے لیے حاضر رہتے ہیں۔ میرے خیال میں رولز کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ لیکن قطع نظر اس بات کے کہ یہ معاملہ قانونی ہے یا نہیں، ہمیں راحیل شریف کو فوراﹰ واپس بلا لینا چاہیے اور کسی بھی پاکستانی فوجی کو وہاں نہیں بھیجنا چاہیے۔ اس کی وجہ سے ہمارے تعلقات نہ صرف ایران بلکہ ترکی، شام اور قطر کے ساتھ بھی خراب ہی ہوں گے۔‘‘