تحریر : سید انور محمود دہشتگردی کا کینسر پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور پوری دنیا اس سے پریشان ہے۔ دسمبر 2015 میں دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے کافی اسلامی ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس اتحاد میں ابتدائی طور پر 34 ممالک تھے تاہم بعد میں ان کی تعداد 39 ہوگئی۔لیکن اس فوجی اتحاد میں ایران، عراق اور شام شامل نہیں ہیں ۔ جنوری 2017 میں جب یہ خبر سامنے آئی کہ سعودی عرب کے تشکیل کردہ 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحادکے سربراہ پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف ہونگے ،تو حکومت نے اس قسم کا تاثر دیا تھاکہ جیسے سابق آرمی چیف سعودی عرب میں نوکری ڈھونڈ رہے ہیں ، پاکستانی عوام کے لیے یہ قبول کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا کہ انکا سابق آرمی چیف عام لوگوں کی طرح نوکری کرئے۔ابھی عام لوگوں کے ذہن میں جنرل صاحب کی تین سال کی وہ خدمات تھیں جس میں انہوں نے ہر دہشتگردی کو اپنا دکھ اور نقصان سمجھا تھا۔ جنرل راحیل شریف کی رہنمائی میں شروع کیے ہوئے آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے پورئے پاکستان میں دہشتگردی میں خاصی کمی آئی تھی، کراچی میں ہونے والے جرائم میں بھی کافی حد تک کمی آئی تھی۔ جنرل راحیل شریف کی ان ہی خدمات کی بناہ پرانکو عوام میں بہت مقبولیت حاصل تھی اور بعض حلقوں میں انہیں ملک کا مقبول ترین آرمی چیف بھی کہا جاتا تھا۔
کچھ دن پہلےپاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا کو بتایا کہ ’’سعودی عرب نے سابق پاکستانی فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کو دہشتگردی کیخلاف 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا سربراہ بنانے کیلئے چھ ہفتے قبل حکومت پاکستان کو خط لکھاتھا، جس کے جواب میں حکومت پاکستان نے سعودی عرب کو تحریری طور پراپنی رضامندی سے آگاہ کردیا ہے‘‘۔ خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی فوجی اتحاد کے خدوخال پر ابھی کام ہونا ہے، مئی میں فوجی اتحاد کی میٹنگ بلائی جائے گی۔ جس میں تمام تفصیلات طے ہوں گی، فوجی اتحاد کے خدوخال جنرل راحیل شریف کی نگرانی میں طے ہوں گے۔ 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کے حوالے سے میں نے 10 جنوری 2017کو ایک مضمون ’’اسلامی فوجی اتحاد مشکوک اور متنازعہ ہے‘‘ لکھا تھا۔ میں نے اس مضمون میں ایک جگہ لکھا تھا کہ ’’اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ دور میں بیشتر اسلامی ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں۔ شام اور عراق میں داعش، پاکستان اور افغانستان میں طالبان، ترکی میں کرد، یمن اور لیبیا میں القاعدہ، نائیجریا میں بوکوحرام جبکہ مصر اور مالی میں مختلف دہشت گرد تنظیمیں اپنی دہشتگردانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔مشترکہ اسلامی فوج کے قیام کے بعد یہ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ اتحاد دہشتگردی کا شکار ان اسلامی ممالک میں دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گا، لیکن اسلامی فوجی اتحاد کے بارے میں یہ منفی تاثر زائل ہونا چاہئے کہ یہ کسی اسلامی ملک کے خلاف ہے۔ اگر واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنانا ہے تو ایران، عراق اور شام کو بھی اس اتحاد میں شامل کیا جائے اور سعودی عرب اور ایران سمیت تمام ممالک ایک دوسرے کے خلاف ہر قسم کی پراکسی وار کو ختم کریں‘‘۔
اصولی طور پر حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ سعودی عرب کو جنرل راحیل شریف کے بارئے میں لکھنے سے پہلے اس بات کی منظوری پارلیمینٹ سے لیتی لیکن نواز شریف عام طور پر قومی معاملات کو ذاتی معاملات سمجھ لیتے ہیں اور پارلیمینٹ کو نظرانداز کردیتے ہیں، ایسا ہی انہوں نے جنرل راحیل شریف کے سلسلے میں کیا۔ حکومت کے اس اقدام کے بعد نئے سوالات نے بھی جنم لیا ہے، ایک بار پھر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ درست ہے یا نہیں۔حکومت کی اپنی کابینہ میں بھی اس فیصلے کے حق میں اور خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل شریف سعودی فوجی اتحاد کے سربراہ بنے تو مسلم امہ کے اتحاد کا سبب بنیں گے، جبکہ وفاقی کابینہ کے ایک اہم رکن سابق لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ نے خدشہ ظاہر کیا کہ جنرل راحیل شریف نے یہ ذمہ داری لی تو وہ متنازع ہوجائیں گے۔تحریک انصاف نے راحیل شریف کے اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کی اجازت دینے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے، پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی محمد خان کا کہنا ہے کہ’’ہماری پارٹی کسی ایسے حکومتی فیصلے کی حمایت نہیں کرسکتی، جس سے مسلم ممالک کے درمیان نفاق پڑنے کا خدشہ ہو، اس فیصلے کے منفی نتائج نکل سکتے ہیں‘‘۔ حکومت نے نہ صرف تحریک انصاف کو اس مسئلے پر اعتماد میں نہیں لیا بلکہ حزب اختلاف کی دوسری جماعتوں سے بھی اس مسئلے پر بات چیت نہیں کی۔ یہاں تک کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اس فیصلے سے لا علم ہیں۔
سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ39 اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کی تشکیل مضحکہ خیز ہے، پاکستانی حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ بگڑتے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے جنرل راحیل شریف کی قربانی دی ہے، راحیل شریف کے اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ بننے پر پی ٹی آئی کے اعتراضات درست ہیں، اس معاملہ کو خفیہ رکھنے کے بجائے پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا چاہئے تھا، پارلیمنٹ کو معلوم ہونا چاہیے کہ فوج اور فوجی ایجنسیوں کے سربراہان بیرون ملک کیاخدمات انجام دئے رہے ہیں۔ گذشتہ مرتبہ پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ن) نے سعودی عرب فوج بھیجے جانے کے خلاف بات کی تھی، خود فوج کے لوگ بھی اس کے خلاف تھے۔ لیکن اب مسلم لیگ(ن) نے یہ فیصلہ توحکومت پر اس فیصلے کے حوالے سے فوج کا کوئی دباؤ نہیں تھا اور یہ فیصلہ حکومت نے خود کیا ہے۔ یہ نواز شریف اور سعودی حکمرانوں کے ذاتی تعلق کا نتیجہ ہے، اس کے علاوہ شاید نواز شریف یہ بھی چاہتے ہیں کہ راحیل شریف باہر رہیں کیونکہ اگر وہ ملک کے اندر رہیں گے تو جہاں کہیں بھی وہ جائیں گے، انہیں ہیرو کا درجہ دیا جائے گا، جو نواز شریف کو قطعی پسند نہیں۔
صیح صورتحال یہ ہے کہ سعودی قیادت میں بننے والے اسلامی فوجی اتحاد میں ایران اور دیگر شیعہ مسلک کے حامل ملک شامل نہیں ہیں، لہذا عوامی طور پر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ اتحاد چند مسلم ممالک کے مفادات کے تحفظ کےلیے ہے، نہ کہ تمام مسلم ممالک کے لیے۔ یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثر و رسوخ کے خلاف برسر پیکار ہے۔ اگرچہ ان دونوں ملکوں کے اختلافات کی نوعیت سیاسی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ علاقے پر تسلط کا خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودی عرب ایک کٹر وہابی اور ایران سخت شیعہ عقائد کا حامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کےلیے یہ صورتحال کسی طور مناسب نہیں ، کیونکہ پاکستان کی رائے عامہ بھی انہی عقائد کی بنیاد پر تقسیم ہے۔لہذا ابھی وقت ہے کہ حکومت اور راحیل شریف دونوں اچھی طرح سوچ لیں کہ جنرل راحیل شریف کو اس متنازع ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کا سربراہ بننا چاہیے یا نہیں، پاکستانی حکومت کو اس حوالے سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا میں دشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ملک خود پاکستان ہے، اس لیے کہ کسی بھی غلط فیصلے سے اپنے ہی ملک میں انتشار پھیلنے کا خطرہ ہے۔ دعا کریں کہ حکومت اور راحیل شریف دونوں جو بھی فیصلہ کریں وہ درست ہو اور پاکستان میں بہتری لائے۔