تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری کئی سالوں سے ہمارا پیارا دیس دہشت گردوں سے نپٹتے ہوئے حالت جنگ میں ہے القاعدہ، طالبان وغیرہ اب غالباً راء کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں کہ ہندو بنیے مشرقی پاکستان کی طرح یہاں بھی لسانی، جغرافیائی، علاقائی اور فرقہ وارانہ کشیدگیوں کی تحریکیں چلا رہے ہیں ۔مجیب الرحمٰن مکتی باہنی، راء اور بالآخر ہندوستانی افواج کی مداخلت سے ہی ملک کے ٹکڑے کر سکا۔
محب وطن افراد نے افواج پاکستان کی پشت پناہی کی اور نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیے انہوں نے پاک سرزمین کو توڑ پھوڑ اور ہندو ئوں کی بالادستی سے بچانے کے لیے جانیں قربان کیں۔آج وہ سبھی بنگلہ دیش کے غدا ر قرار دیے گئے ہیں۔اپوزیشن کے راہنما پھانسی کے تختوں پر جھول رہے ہیں ہم ایٹمی ملک ہونے کے باوجودظالم حسینہ کا بازو مروڑنے اور اسے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے بڑی وجہ تو حکمرانوں کی ناکام خارجہ پالیسی ہی ہے۔جو اندرونی خلفشار اور سیاسی بزدلیوں کا ہی نتیجہ ہے ۔1974میں سہ فریقی معاہدے کی رو سے 1971 کی جنگ کے تمام محرکات و مضمرات کو بھول کر بھارت ،بنگلہ دیش اور پاکستان کا آگے بڑھنا اور مستقبل میںبھی کسی فریق کو تنگ نہ کرنا طے پایا تھا۔ مگر ظالم حسینہ نے آتے ہی اس معاہدہ کو توڑڈالااور ٹریبونل بنا کر انہی افراد کو ظلم کی چکیوں میں پیسنا شروع کردیا۔ جنہوں نے پاکستان افواج کی امداد کی تھی۔
ہندوئوں کو ہمارے مشرقی حصہ پر قابض ہو جانے سے بچانے کے لیے جانی و مالی قربانیاں دی تھیں۔ڈھاکہ کے پلٹن میدان میںمسلم سپاہ کے نوے ہزار سے زائد جنگجوئوں کاہتھیار ڈالنا اور پھر ہندوئوں کا کئی ہفتے لوٹ مار کرکے کئی ہزار ہماری بیٹیوں ،بہنوں کو بھی اغوا کرکے لے جاناتاریخ اسلام کا سیاہ ترین باب ہے جو کہ ہم مسلمانوں کی غلط پلاننگ اس وقت کے حکمرانوں اور متعلقہ افراد کی روایتی بزدلیوں ،اقتداری لالچوں اور ہوس ناکیوں کی وجہ سے ہی ممکن ہواجو ٹریبونل بنایا گیا اس کی رپورٹس کے مطابق جن افراد نے میر جعفر اور میر صادق کے کردار اد اکیے ان کا نام لکھتے ہوئے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
Pak Army
بہر حال انہونی ہو کر رہی اور ملک دو لخت ہو گیااب ہمارے ہاں بھی وہی راء سر گرم عمل ہے اور اس نے بد کردار اور لالچی افراد جو صرف نام کے مسلمان ہیں میں سے ہی اپنے ایجنٹ ڈھونڈھ رکھے ہیںجو ملکی سا لمیت کو ہر صورت نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں ہم بطور قوم ا ور ہمارے مقتدر ودیگر بااثر افراد خواب خرگوش میں مدہوش صرف خزانہ لوٹنے ،حرام مال اکٹھا کرنے اور بیرون ممالک آف شور کمپنیوں کے ذریعے انویسٹ کرتے جارہے ہیں۔
افواج پاکستان بے جگری سے ہمہ قسم ملک دشمنوں سے لڑ رہی ہیں۔ ان کی قربانیاں بھی عظیم سے عظیم تر ہیں۔مگر یاد رہے کہ جنگ میں جیت ہی نہیں کبھی کبھار شکست بھی ہو جاتی ہے۔یہ دوسرا پہلو بھی ہمارے ملحوظ خاطر رہے اگر خدا نخواستہ خدانخواستہ(میرے منہ میں منوں خاک)ہماری صفوں میں چھپے ہوئے اور خفیہ کمین گاہوں میں مو جود دشمنان دین و وطن راء کی سازشوں اور اس کی مدد سے کامیاب ہو جاتے ہیں اور انہیں مشرقی پاکستان کی طرح یہاں بھی ایجنٹ مل گئے تو پھر وہ ہمیں برداشت تو کیا کریں گے،مکمل طور پر قابض ہو نے کے لیے غداری کے سر ٹیفکیٹ ہمیں دے کر ایسے ہی ٹریبونلوں کے ذریعے تختہ دار پر کھینچ ڈالنے کے لیے کو شاں ہوں گے۔کمانڈو جنرل نے ایک ہی فون کال پر ہمسایہ مسلمان ملک افغانستان پر حملوں کی اپنے اڈوں سے اجازت دینے پر امریکیوں نے ہزاروں حملے کیے۔
القاعدہ بی بی تو انھیں کیا ملنی تھی ملک تہس نہس کرڈالا۔گناہ گار کم اور بے گناہ معصوم مسلمان زیادہ شہید ہوئے مگر “افغان باقی کہسار باقی”کی طرح وہ سخت جان نکلے۔بالآخر امریکہ اپنی اتحادی افواج سمیت شکست خوردہ ہو کر نکل جانے کے لیے کوشاں ہے التجائیں یہ ہیں کہ ہمیں باحفاظت نکل جانے دوہم نے تو اس نام نہاد دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے کروڑوںڈالروں کا نقصان کیا۔ہندو بنیا تو ہمیشہ سے مکار ہے ایک ہزارسال تک پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت اس کی رات کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔حالانکہ مسلمانوں کی حکمرانی کے ادوار میں تمام مذاہب کے پیرو کاروں کو اپنی عبادات کرنے اور تقریبات کے انعقاد میں مکمل آزادی تھی۔جان و مال مکمل محفوظ تھے انگریز مسلم دشمنی کی وجہ سے ملک چھوڑتے وقت پانچواں حصہ ہمیں دے گئے۔
Army Chief Genreal Raheel Sharif
حالانکہ ان کے اقتدار سے قبل پورے ہندوستان کے ہم قطعی حکمران تھے۔راء کی سازشوں اوربدمعاشیوں کو ہماری افواج اور سکیورٹی ایجنسیاں خوب جانتی ہیں اس کے باوجود ہمارے حکمران یا تو انجان اور بھولے ہیں یا پھر طاقت والوں سے سلام دعا اور ذاتی تعلقات رکھنے کے ماہرکہ مودی کی دوستی پر فخر کرتے نہیں تھکتے جو بنگلہ دیش میں جاکر تقریریں کرتا ہے کہ دیکھا یہ ہم ہی تھے جنہوں نے مغربی پاکستان کی فوجوں کو گرفتا ر کیا اور آپ کے لیے بنگلہ دیش بنایا ان حالات میں ہماری افواج کو چو مکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔اندرونی ، بیرونی محازوں اور سازشوںکے علاوہ مغربی اور مشرقی بارڈروںپر بھی مصروفیتیں بڑھ چکی ہیں۔پانامہ لیکس،بنکوں سے ادھار لی گئی رقوم کی معافی اور دیگر معاشی دہشت گردوں کی سرکوبی کرنے جیسے معرکوں کو سر کرنے کے لیے بھی قوم نے قرعہ فعال افواج ہی کے نام نکالا ہے کہ وہی ان معاشی دہشت گرد اقتدار پرستوں کو خوب ٹھکانے لگاسکتے ہیں جو کہ اب اولین ترجیح بن چکی ہے۔
راحیل شریف صاحب کو ان محب وطن لو گوں کی بھی پشت پناہی کرنا ہے جن کا مشرقی پاکستان میں قتل عام جاری ہے حکمرانوں کو بھی اس سلسلہ میں مکمل سٹینڈ لینا چاہیے و گرنہ کل کو ہمارے ساتھ بھی ایسا معاملہ (خدا وہ وقت نہ لائے) خدانخواستہ پیش آیا تو دنیا ہمارا بھی تماشہ دیکھے گی اور ہم بھی بے یار و مدد گار ہوں گے۔
بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلا لینااولین ترجیح ہونی چاہیے ہمیں او آئی سی کی میٹنگ بلوا کر تمام عالم اسلام کے سامنے یہ بات رکھنا ہو گی کہ وہ ظالم حسینہ کوروکیں اسے نتھ نہ ڈالی گئی تو وہ بھارتی شہہ پر اور ہندوئوں کی اشیر باد سے قتل و غارت گری جاری رکھے گی اور پھر اس کے خونی پنجے ہماری طرف بھی رخ کرسکتے ہیں۔ہماری افواج کے کمانڈر جو شہیدوں کے خاندان کے عظیم سپوت ہیںوہ خصوصی طور پر بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ سے رابطہ کریںتاکہ وہ حسینہ واجد کو اوچھے ہتھکنڈوں سے باز رہنے کے لیے دبائو ڈالیں پورا عالم اسلام مذمتی قرار دادیں پاس کر رہا ہے مگر ڈنڈا پیرا اے وگڑیاں تگڑیاں دا اس لیے بنگلہ دیش کی سربراہ کو جب تک مسلمان سربراہوں نے ملکر آنکھیں نہ دکھائیں تو وہ بپھری ہوئی سپنی بنی اپوزیشن راہنمائوں کو مارنے سے باز نہیں رہے گی۔حب الوطنی سے سرشار افراد کی ہم نے بروقت امدادنہ کی تو ہم پر بے وفائی کا جو الزام لگے گا وہ صدیوں بھلایا نہ جا سکے گا۔