تحریر: حبیب اللہ قمر پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی عرب کی زیر قیادت اسلامی فوجی اتحادکی سربراہی کیلئے این او سی جاری کر دیا گیا ہے جس کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ خصوصی طیارہ کے ذریعہ سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔ان کی مدت ملازمت تین سال کیلئے ہو گی۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ حکومت نے جنرل (ر) راحیل شریف کو جی ایچ کیو کی منظوری کے بعد قانون کے مطابق این او سی جاری کیا ہے۔ادھر مجلس قائمہ کا ایک اجلاس سردار اویس لغاری کی زیر صدارت ہوا جس میں قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ نے شرکاء کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف کے اسلامی اتحاد کا سربراہ بننے سے پاکستان کو فائدہ ہو گا۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پانچ ہزار پاکستانی فوجیوں کی بھی سعودی عرب روانگی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
سعودی عرب کی زیر قیادت اسلامی فوجی اتحاد سولہ دسمبر 2015ء کو معرض وجود میں آیا ۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے بنائے گئے اتحاد میں پاکستان، ترکی، مصر،انڈونیشیا، اردن، متحدہ عرب امارات، سوڈان، تیونس، قطر اور ملائشیا سمیت اسلامی دنیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔اس اتحاد کا آپریشنل مرکز سعودی دارالحکومت الریاض میں ہو گاجہاں سے نہ صرف دنیا بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مانیٹرنگ کی جائے گی بلکہ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے مشترکہ طور پر عملی اقدامات کئے جائیں گے۔اسلامی اتحاد کا بنیادی مقصد مسلم ملکوں کے درمیان سلامتی کے حوالہ سے تعاون سمیت فوجیوں کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کا بیانیہ وضح کرنا تھا۔ جب اس اتحاد کے قیام کا اعلان کیا گیا تو سعودی عرب میں مسلمان ملکوں کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں دہشت گردی کی بیخ کنی اور عالمی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے موثر حکمت عملی وضع کرنے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک میں باہمی رابطوں کو مزید بہتر بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
ریاض میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ انسانیت کے خلاف وحشیانہ جرائم اور فساد فی الارض ناقابل معافی جرائم ہیں جو نہ صرف انسانی نسل کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں بلکہ بنیادی حقوق کی پامالی اور انسانی عزت و احترام کے لیے بھی نہایت خطرناک ہیں۔ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تمام مسلمان ممالک سعودی عرب کی قیادت میں متحد ہیں اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کی جائے گی۔اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کے مقاصد شروع دن سے بہت واضح ہیں لیکن مسلمان ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد نہ دیکھنے والی قوتیں اسے متنازعہ بنانے میں کوشاں رہی ہیں اور اب بھی یہی کچھ کیا جارہا ہے۔ بعض سیاستدانوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اس معاملہ پر پارلیمنٹ میں بحث اور اراکین اسمبلی کو ساری تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح یہ بھی کہاجارہا ہے کہ اس اتحادمیں چونکہ ایران اور عراق جیسے ملک شامل نہیں ہیں’ اس لئے پاکستان کی شمولیت سے فرقہ وارانہ صورتحال پروان چڑھے گی تاہم یہ اعتراضات درست نہیں ہیں۔
یمن میں حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب کی سرحدوں پر حملوں اور سرزمین حرمین شریفین پر قبضہ کی کھلی دھمکیوں کے بعد سعودی اتحاد نے جوابی کاروائی شروع کی اور پاکستان سے مدد طلب کی گئی تو بعض سیاستدانوں کے کہنے پر اس معاملہ پر پارلیمنٹ میں بحث کا آغاز کر دیا گیا ۔ اس دوران سعودی عرب کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا رہا اور بھانت بھانت کی بولیاں بولی گئیں جس سے برادر اسلامی ملک سمیت یواے ای جیسے ملک بھی ناراض ہوئے’ اب ایک مرتبہ پھر وہی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے کسی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان کے اس اتحاد میں شامل ہونے پر فرقہ وارانہ معاملات پروان چڑھنے کی باتیںحقائق کے بالکل برعکس ہیں۔دیکھا جائے تو ایران نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ بھارتی موقف کی حمایت کی ہے۔ پاکستان کے اس سے تعلقات کمزور رہنے کی وجہ اکتالیس ملکی اتحاد میں شمولیت نہیں ہے۔ اس اتحاد کو بنے تو ابھی دوسال بھی نہیں ہوئے۔ ہر ملک اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر بھی اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
آج کچھ لوگ یہ اختلافات کی آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ا س اتحاد میں شامل ہونے سے پہلے ایران کے تحفظات کو ہر صورت دور کرنا چاہیے۔ان سے اگر یہ پوچھا جائے کہ ایران نے جب عراق، شام یا یمن میں دخل اندازی کی تو کیا اس نے پاکستان سے پوچھ کر ایسا کیا تھا تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہمیں حقائق کو بغور سمجھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ جنرل راحیل شریف ایک باصلاحیت اور پیشہ ور فوجی جرنیل ہیں جن کی صلاحیتوں کی دنیا معترف ہے۔ اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کی کمان پاکستان کے پاس رہتی ہے تو یہ یقینا فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہو گا۔ جنرل (ر) راحیل شریف کا اسلامی اتحاد کا سپہ سالار بننا جہاں وطن عزیز پاکستان اورپوری پاکستانی قوم کیلئے اعزاز کی بات ہے وہیں ان کے پاس قیادت رہنے سے یہ اتحاد ان شاء اللہ اپنے طے شدہ مقاصد کو بروئے کار لانے میں کاربند رہے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب میں مساجد وامام بارگاہوںمیں خودکش حملے ہوں، پاکستان میں افواج، عسکری اداروں ، مساجداور پبلک مقامات پر بم دھماکے ہوں یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں اس نوع کی دہشت گردی’ سب کے پیچھے دشمن قوتوںکاہاتھ کارفرما نظر آتا ہے۔ مغربی ممالک خود ہی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں افواج و دفاعی اداروں پر حملے کروائے جاتے ہیں’بے گناہ انسانوں کا لہو بہانے کیلئے ہر طرح کی مدداور وسائل فراہم کئے جاتے ہیں اور پھرکچھ عرصہ بعد انہی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کے بہانے مسلم ملکوں میں مداخلت کر کے انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑی سازش ہے جو پچھلے کئی برسوں سے کی جارہی ہے۔پہلے نائن الیون کا ڈرامہ رچاکر صلیبی ملکوں کا بڑ ااتحاد بنایا گیا اور افغانستان پر چڑھائی کر کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ عراق میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ دس لاکھ سے زائد عراقی مسلمانوں کو شہید کر کے اپنی پسند کے لوگوں کو وہاں اقتدار دلوایا اور بعد میں ٹونی بلیئر جیسے برطانوی حکمران معافیاں مانگتے نظر آتے ہیں کہ عراق پر حملہ کیلئے جو الزامات لگائے گئے تھے وہ ثابت نہیں ہو سکے اور اسی حملہ کے نتیجہ میں بعض تکفیری گروہ اور تنظیمیں وجود میں آئیں جنہوںنے آج مختلف مسلمان ملکوں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ایسی صورتحال میں مسلم ممالک کے ایک بڑے اتحاد اور مسلم معاشروںمیں دہشت گردی پھیلانے والی تنظیموں کیخلاف مشترکہ طور پر عملی اقدامات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔بہرحال سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والا فوجی اتحاد جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 41اسلامی ممالک شامل ہیں’انتہائی خوش آئند اور پوری مسلم امہ کے دل کی آواز ہے۔
پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے نیٹ ورک بکھر کر رہ گئے ہیں۔اسی طرح سعودی عرب میں بھی دہشت گردوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں کی گئی ہیں اور سعودی فورسز کو اہم کامیابیاں حاصل ہور ہی ہیں۔ اس لئے اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان اور سعودی عرب کا کردار سب سے اہم دکھائی دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے پاکستانی فوج کو جن کامیابیوں سے نوازا ہے’اس کے فوائد ان شاء اللہ دیگر مسلم دنیا کو بھی ہوں گے اور دوسرے اسلامی ملکوں سے بھی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔آئندہ دنوں میں بین الاقوامی سطح پر اس اتحاد کا کردار مزید اہم ہو گا۔دنیا بھر کے بدلتے ہوئے حالات میں سابق آرمی چیف کو اسلامی فوجی اتحاد کی ذمہ داری ملنا انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اس اتحاد کے حوالہ سے کسی کو غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعہ کا کہنا ہے کہ پاکستان بطور ریاست کسی کی طرفداری نہیں کرے گا۔ پاکستان کی سول و عسکری قیادت پہلے سعودی عرب اور پھر ایران گئی۔ جنرل (ر) راحیل شریف ایران کے بہت بڑے خیرخواہ ہیں۔ اس لئے ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ اسلامی فوجی اتحاد کے کمانڈر کے طور پر ان کے خلاف کوئی سوچ رکھیں۔ پاکستانی وزیر دفاع، جنرل ناصر جنجوعہ،سعودی سفیر اور دیگر اہم ذمہ داران کی بار بار وضاحتوں کے بعد کسی قسم کے غلط پروپیگنڈا کو ہوا نہیں دینی چاہیے اور خوامخواہ قومی سلامتی سے متعلقہ ایسے معاملات کوپارلیمنٹ میں اچھالنے کی کوششیں نہیں کرنی چاہیے۔ہمیں اپنے سیاسی مفادات سے زیادہ ملک کا قومی مفاد عزیز ہونا چاہیے۔ سعودی عرب نے کبھی مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور کھل کر پاکستان کی مددوحمایت کی ہے آج اگرسرزمین حرمین شریفین کی سلامتی و استحکام کو نقصان پہچانے کی سازشیں کی جارہی ہیں تو ہمیں بھی برادر اسلامی ملک کے تحفظ کیلئے کسی قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔