موت برحق ہے اور اسے ہر صورت ایک نہ ایک دن آنا ہی ہوتا ہے ہر انسان اس کی قطار میں کھڑا اپنی باری کا منتظر ہے لیکن پھر بھی موت کا صدمہ اور غم اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ گذشتہ دنوں معروف کالم نگار اور سینئر صحافی رحمت علی رازی چپکے سے داغِ مفارقت دے کر راہی مُلکِ عدم ہو گئے۔ صحافت کے افق پر چار عشروں سے زائد عرصہ تک چمکتا اور دمکتا ستارہ غروب ہو گیا اور فضا سوگوارکر گیا۔
رحمت علی رازی اللہ میڈ انسان تھے اپنی عملی زندگی میں محنت کے ہتھیار سے لیس ہو کر میدانِ صحافت میں آئے وقت کے بہتے دریا کی لہروں میں غوطہ زن ہو کر وقت کے نشیب و فراز کے بے رحم تھپیڑوں سے مقابلہ کر کے ثابت قدم رہتے ہوئے اپنی زندگی کی کشتی کو کنارے کے اُس پار لے جا کر کامیاب لوگوں کی صف میں کھڑے ہو گئے جہاں کی آرزو ہر انسان کے دل میں پنہاں ہوتی ہے لوگ عام طور پر اس جدوجہد کو سیلف میڈ کا نام دیتے ہیں مگر میں اسے اللہ میڈ کہتا ہوں۔
رازی صاحب کا بہاولپور سے لاہور تک کا سفر جہدِ مسلسل کی ایک انمٹ داستان ہے۔ 1974 میں صحافت کے میدانِ کارزار میں قدم رکھنے والے رحمت علی رازی چار عشروں سے زائد قلم کی عزّت و حرمت کے امین رہے نڈر اور بے باک صحافی کی حیثیت سے اپنی برادری میں امتیازی حیثیت کے حامل تھے اپنی عزتِ نفس کو ہمیشہ مقدم رکھا حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت خود کو تیار رکھا اور اپنی صحافتی زندگی میں کبھی بھی احساسِ کمتری کا شکار نظر نہیں آئے۔ ہمیشہ قومی لباس شلوار قمیض میں ملبوس واسکٹ زیبِ تن کیے موچی سے بنوائی گئی سادہ جوتی استعمال کرنے والے رازی صاحب کی یہ وضع قطع اور سادگی اُن کے دیہاتی مزاج کا سمبل بن گئی اور اُنہوں نے بڑے سے بڑے مقتدر حلقوں میں بھی اپنی خودداری پر آنچ نہیں آنے دی۔ رازی صاحب رپورٹنگ میں تھے تو اپنی محنتِ شاقہ اور لگن سے APNS کے بہترین رپورٹر کا مسلسل سات مرتبہ ایوارڈ اپنے نام کرکے منفرد ریکارڈ قائم کیا کالم نگاری کی طرف آئے تو اس میں بھی دھاک بٹھا دی۔ درونِ پردہ کے عنوان سے لکھے جانے والے ان کے کالم کو پڑھنے کے لیے قارئین کو ہفتہ بھر انتظار رہتا۔
رحمت علی رازی کو اُن کے حلقہ احباب میں بیوروکریسی کا ”انسائیکلو پیڈیا” کہا جاتا تھا اور اُن کی تحقیقی رپورٹنگ پڑھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔ قارئین کرام! بیوروکریٹس، جرنیل، صنعت کاروں اور سیاست دانوں کی آپس میں رشتہ داریوں پر مشتمل(کون کس کا کیا ہے )کے عنوان سے تحقیقی رپورٹنگ آج بھی پڑھنے میں اُتنی ہی دلچسپ ہے جتنی اُس وقت تھی جب اخبارات اور کالموں کی زینت بنی۔عام فہم قاری کو بھی یہ تحقیقاتی رپورٹیں پڑھنے کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے کہ معاشرے کے ان طاقتور طبقوں نے اپنے اپنے اجتماعی مفادات کے تحفظ کے لیے یکجا ہو کر کیسی چہار جہتی چین بنائی ہوئی ہے ۔ سول اور فوجی بیوروکریسی کے نوجوان آفیسروں کو رشتہ داری کے بندھن میں جکڑنے کے لیے صنعت کار اور سیاستدان کیسے اُچک لیتے ہیں۔ رحمت علی رازی نے اپنے کالم درونِ پردہ میں بیوروکریسی کے مستقبل کے احوال درج کرنے کے لیے منفرد اسلوب” اندر کی خبر یہ بھی ہے” اپنایا اور یہ جملہ بڑا مشہور ہوا اور اندر کی خبر یہ بھی ہے کالم کے آخر پر ذکر کیا جاتا جس میں بیوروکریٹس کی ٹرانسفر، پوسٹنگ، ٹریننگ، رُخصت، انکوائری، بیرونِ ملک روانگی ، آپس کی رنجش اور لابنگ حتیٰ کہ ان کے ازدواجی رشتوں کے بندھن تک کا تذکرہ ہوتا۔ بیوروکریسی کی نفسیات کے حوالے سے اُن کا اپنا ایک خاص مقولہ تھا کہتے کہ بیوروکریٹ نے اگر کسی کا کام کرنا ہو تو پنجابی میں بات کرے گا اور اگر نہ کرنا ہو تو انگریزی جھاڑے گا۔اس حوالے سے وہ ان کے لیے لفظ( مہاکلاکار) استعمال کرتے۔ سینئر بیوروکریٹس کے ساتھ اُن کی دوستی بھی مثالی تھی سفارش دبنگ انداز میں کرتے۔ اعلیٰ بیوروکریسی سے اپنے تعلقات کو اپنے غریب اور متوسط رشتہ داروں کے تعلیم یافتہ بچوں کو روزگار دلوانے میں استعمال کرتے اور کہتے کہ کسی کا روزگار میرے لیے توشئہ آخرت سے کم نہیں ، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کے حوالے سے رحمت علی رازی جدپال اور لجپال کی حیثیت رکھتے تھے ۔ رحمت علی رازی کے مُلک میں رائج فرسودہ اور ناکارہ نظامِ عدل اور پولیس کے روایتی تفتیشی نظام کی تبدیلی پر لکھے گئے تحقیقی کالم جن میں دی گئی مثبت اور قابلِ عمل ٹھوس تجاویز اور صائب مشورے آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں اور مُلک کی اعلیٰ عدلیہ اور پولیس اس دور میں بھی ان سے استفادہ کر سکتی ہے۔
رحمت علی رازی جذبہ حب الوطنی سے سرشار پاکستانی تھے( قرض اُتارو مُلک سنوارو )کی تحریک جب عروج پر تھی تو اُس وقت ملک کا درد رکھنے والے ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے مُلکی خودداری اور خودانحصاری کے تحفظ اور قرضے کی لعنت سے نجات کے ایسے ایسے گُر بتائے کہ بڑے سے بڑے معاشیات دان بھی اس کا احاطہ نہ کر سکیں قابلِ عمل تجاویز اور مشورے نہ مانے جانے پر دل گرفتہ رہے اور اسے اُس وقت کے حکمرانوں کی نیت میں خلل قرار دیا ان دنوں اُنہوں نے دو تین کالم اپنی صحافتی زندگی کے شب و روز اور بہاولپور سے لاہور تک کے سفر کی داستان کے حوالے سے بھی قلم بند کیے جس میں اپنا خاندانی پسِ منظر اور ما فی الضمیر کھُل کر بیان کر دیا۔ بے شک وہ سچے، کھرے انسان تھے منافقت اُن سے کوسوں دور تھی۔اکثر یہ جُملہ دہراتے کہ انسان کو خوش کرنا بہت بڑی عبادت ہے میں اس بات کا عینی گواہ ہوں جب اُن کی بیٹی کی شادی تھی تو میں اُن کے دفتر گیا۔ باورچی اُنہوں نے بلوایا ہوا تھا اور کھانے سے متعلق بات چیت جاری تھی کہنے لگے برخوردار سنو! میں نے باورچی سے کہا ہے کہ پچاس ساٹھ بندوں کا کھانا علیحدہ لگوانا اور یہ کھانا پندرہ سے بیس منٹ پہلے کھانے کے لیے کھول دینا ہے یہ منطق باورچی کی سمجھ میں نہ آئی تو مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے میرے دوست احباب جن کی اکثریت VIP کیٹیگری کی ہو گی آفسیرانِ بالا اور سیاستدان ہوں گے ان کے ساتھ جو گن مین اور ڈرائیورز آئیں گے میں نے ٹیم تشکیل دے دی ہے وہ اُن کو اُس کھانے کی جگہ پر لے جائیں گے جو پندرہ منٹ پہلے شروع کرنا ہے تاکہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا لیں پھر مہمانوں کا کھانا شروع کر دیا جائے کیونکہ مہمانوں کی اکثریت نے حاضری لگوانے آنا ہے اور پرہیزی طور پر دو چار نوالے کھانے ہیں میری خوشی تو اس میں ہے کہ ان کے ساتھ آئے ہوئے ادنیٰ درجے کے ملازمین میرے ہاں سے کھانا کھا کر جائیں میرے لیے ان کی خوشی مقدّم ہے اور ان کا ناراض ہونا ناگوار ہے۔ سرکاری طعام کی محفلوں میں جاتے تو کھانا کھانے سے احتراز کرتے اور اس طرزِ عمل پر افسوس کا اظہار کرتے کہ برخوردار کھانا کھُلتے ہی بڑے بڑے نامی گرامی لوگوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور اُن کا کھانے پر حملہ آور ہونا میرے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔
رازی صاحب کے مزاج میں دیہاتی پسِ منظر کا مزاح اور اپنے حلقہ احباب میں ان کی بزلہ سنجی اور شگفتہ بیانی مشہور تھی اہلِ ذوق تھے اپنی گفتگو سے محفل کو کشتِ زعفران بنا دیتے اسی لیے اپنی صحافی برادری میں ہر دلعزیز شخصیت کے طور پر مشہور تھے ۔اُن کے دفتر اور ذاتی ڈرائنگ روم میں آویزاں خوبصورت پینٹنگز اُن کے ذوق کا مظہر اور دیہاتی مزاج کی عکاس تھیں بہاولپور کی مٹی کے اس عظیم سپوت نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔رازی صاحب معاشرت کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی ایک سچے عاشقِ رسول ۖاور صوم و صّلوة کے پابند نرم دل مسلمان تھے۔ حضور پُرنورکے سراپاء حُسن کا تذکرہ آتا یا آپ کے مسکن مدینہ منوّرہ کی گلیوں کا ذکر ہوتا تڑپ اُٹھتے آنکھیں آنسوئوں سے بھیگ جاتیں آہ و زاری کا منظر طاری ہو جاتا بعض اوقات ہچکیاں بندھ جاتیں۔ راقم الحروف کا بڑا اکرام کرتے اور مجھے پیار سے مولوی صاحب کہہ کر مخاطب کرتے اور کہتے کہ جب سے تو نے اپنے والدِ گرامی کا جنازہ خودپڑھایا ہے اس احسن عمل نے میرا دل جیت لیا ہے۔رازی صاحب نے عمر بھی 63 سال پائی جو کہ ایک ادنیٰ سے اُمّتی کی اپنے نبی مکرم(ۖ) کی عمر سے مماثلت کو ظاہر کرتی ہے یہ مشیتِ ایزدی تھی یا اُن کی دلی آرزو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اکثر اوقات باوضو رہتے حضور کی ذاتِ عالی پر درودوں کے گجرے بھیجتے جن کی تصدیق مقامی مسجد کے امام نے کی کہ وہ باوضو ہو کر رات بھردرود شریف پڑھتے رہتے اور کہا کہ یہ اُن کا ایک راز تھا جو اُن کی رحلت کے بعد اُن کے چاہنے والوں پر افشاء کر رہا ہوں۔اُن کی نمازِ جنازہ میں صحافتی برادری کی کثیر تعداد میں شرکت اس بات کی غمازی کرتی تھی کہ وہ اپنی برادری میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ مردِ قلندر کا جنازہ بھی دورِ حاضر کے صوفی باصفا عاشقِ رسول صوفی محمد شوکت علی دامت برکاتہم نے پڑھائی اور رازی صاحب نے دُنیا میں سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی اپنی ماں جی کے قدموں میں آخری آرام گاہ پائی اور آسودئہ خاک ہوئے۔رحمت علی رازی صاحب اللہ اپنی رحمت سے تم پر راضی ہو جائے (آمین)۔
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے