ممبئی (جیوڈیسک) بھارت کی اہم سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی صدارت سے راہول گاندھی نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت میں سیکولرازم کی داعی یہی بڑی جماعت ہے اور گزشتہ دو انتخابات میں اس پارٹی کی مجموعی کارکردگی ناقص رہی ہے۔
بھارت میں یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ راہول گاندھی کے کانگریس پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد کا منظر نامہ کیا ہو گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گزشتہ دو انتخابات میں کانگریس پارٹی کی مجموعی کارکردگی سے عوام شدید مایوس دکھائی دیتے ہیں اور یہ مایوسی بھارت میں سیکولرازم کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔
راہول گاندھی نے مستقبل میں پارٹی کو بہتر خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے الیکشن میں ناکامی کے بعد احتسابی عمل کے تناظر میں پارٹی کی قیادت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے چار صفحاتی خط میں واضح کیا کہ دوسروں پر انتخابات میں شکست کی ذمہ داری عائد کرنے سے بہتر ہے کہ اس صورت حال کا بطور صدر وہ خود اعتراف کریں۔ انہوں نے پارٹی کی تشکیل نو کے لیے خود احتسابی کو اہم قرار دیا۔
راہول گاندھی رواں برس کے عام انتخابات میں اپنے پرانے حلقے کی نشست سے بھی ہار گئے تھے۔ یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے اُن کے والد مقتول راجیو گاندھی الیکشن جیتتے رہے تھے۔ اسی حلقے سے سابقہ انتخابات میں اُن کی والدہ سونیا گاندھی کو کامیابی ملی تھی۔
یہ اہم ہے کہ پارٹی کے مرکزی پالیسی ساز شعبے کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ابھی اس استعفے کو منظور کرنا ہے۔ دوسری جانب کانگریس پارٹی کے کئی اور اہم عہدیداران نے بھی مستعفی ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ ان میں خاص طور پر ریاست مہاراشٹر کے صدر اشوک چاوان نمایاں ہیں۔ چاوان کا کہنا ہے کہ ہر ایک کو اپنے حصے کی ذمہ داری سنبھالنی ضروری ہے۔
ایسے اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی گاندھی کے استعفے کو مسترد کر دے گی اور انہیں قیادت سنبھالنے کی تلقین کرے گی۔ دوسری جانب اس کا بھی امکان ہے کہ رواں برس کے پارلیمانی انتخابات سے قبل عملی سیاست میں قدم رکھنے والی پریانکا گاندھی واڈرا کو راہول گاندھی کی جگہ نیا صدر مقرر کر لیا جائے۔ پریانکا گاندھی اس وقت آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہیں یہ منصب رواں برس چار فروری کو سونپا گیا تھا۔
راہول گاندھی کے استعفے پر غور و خوص کے لیے کانگریس کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کو طلب کرنے کی کوئی تاریخ سامنے نہیں آئی ہے۔ اگر راہول گاندھی اپنا استعفیٰ واپس لینے پر تیار نہیں ہوئے تو سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک ورکنگ کمیٹی کے پاس تین راستے ہیں:
1۔ پارٹی کی قیادت کچھ عرصے کے لیے کوئی عبوری صدر سنبھال لے۔
2۔ پارٹی کی قیادت عبوری صدر کے بجائے چند افراد کے سپرد کر دی جائے تاوقتیکہ کوئی نیا صدر منتخب نہیں ہو جاتا۔
3۔ ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے دی جائے جو مستقبل کے سیاسی راستے کا تعین کرے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بظاہر ورکنگ کمیٹی کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ اگر کانگریس ملک کے اندر نریندر مودی کے قوم پرستانہ رجحانات کی نفی کے لیے عوام کو متحرک کرنے میں ناکام رہتی ہے تو بھارت کے سیکولر تشخص پر سوال اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔ مودی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ الیکشن میں عوام نے سیکولر قوتوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔