سپریم کورٹ نے پاکستان ریلوے کے مالی خسارے سے متعلق مقدمے میں ریلوے حکام سے کہا ہے کہ وہ دو ہفتوں کے اندر اس ادارے میں بہتری لانے کے لیے منصوبہ بنا کر جمع کروائیں ورنہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔منگل کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریلوے کے مالی خسارے سے متعلق مقدمے کی سماعت کی۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ جس طریقے سے ریلوے کو چلایا جارہا ہے ‘اس سے بہتر ہے کہ اس محکمے کو بند ہی کردیا جائے۔اْنھوں نے کہا کہ ریلوے کی بہتری کے لیے اقدامات نظر نہیں آرہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی سامنے آرہی ہے۔عدالت نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کو روسٹرم پر طلب کیا اور ان سے دریافت کیا کہ وہ اس محکمے کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟اس پر وزیر ریلوے نے دعویٰ کیا کہ اْن کے دور میں ریلوے میں سفر کرنے والے افراد میں 70 لاکھ سے زیادہ مسافروں کا اضافہ ہوا ہے۔اْنھوں نے کہا کہ ریلوے کی بہتری کے لیے مزید اقدامات کیے جارہے ہیں جس میں چین کے تعاون سے ایم ایل ون منصوبہ بھی شامل ہے۔اْنھوں نے ریلوے کی سینکڑوں ایکڑ اراضی واگزار کرنے کا بھی ذکر کیا، جس پر بینچ کے سربراہ نے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو خواب نہ دکھائیں، آپ کا سارا کچا چھٹا ہمارے سامنے ہے۔عدالت نے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سب سے سینیئر وزیر ہیں اور ان کے ادارے میں کارکردگی میں بہتری آنی چاہیے تھی لیکن ایسا نظر نہیں آرہا اور ان کا ادارہ سب سے نااہل ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے نے وزارت ریلوے میں کام نہ ہونے کا معاملہ وزارت منصوبہ بندی سے جوڑتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ادارے میں بہتری لانے کے لیے وزارت منصوبہ بندی کے پاس جاتے ہیں لیکن ان کی طرف سے بھیجی جانے والی فائلوں پر توجہ نہیں دی جاتی۔عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر اور سیکریٹری پلاننگ ڈویژن کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔بعد ازاں عدالت نے اس مقدمے کی سماعت 12 فروری تک ملتوی کردی۔یاد رہے کہ ریلوے میں خسارے کا مقدمہ سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور سے چل رہا ہے۔اْس وقت کے وفاقی وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق کے دور میں ایک درخواست سپریم کورٹ کے انسانی حقوق کے سیل میں آئی تھی جس میں ریلوے کے خسارے کا ذکر کیا گیا تھا، جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس معاملے کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔ سماعت سے قبل شیخ رشید احمد نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے جس معاملے پر نوٹس جاری کیا ہے وہ محکمہ ریلوے کا سنہ 2013 سے سنہ 2017 تک کے آڈٹ سے متعلق ہے۔اْنھوں نے کہا کہ ان کو تو وزارت سنبھالے ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہے اور اس عرصے کے دوران اکاؤنٹس کا آڈٹ کرنے میں وقت لگے گا۔
پنڈی بوائے شیخ رشید احمدمیڈیا کی ہاٹ سیاسی پرسنیلٹی ہیں۔ ہر ٹی وی چینل کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پرائم ٹائم پروگرام میں اپنی رینٹنگ بڑھانے کے لیے پاکستانی سیاست پر شیخ رشید کی دسترس کی وجہ سے ان کا موقف لینے کی کوشش کرے۔ شیخ رشید پارلیمانی سیاست پر گہرا عبور رکھتے ہیں۔ شیخ رشید احمد کو مسلم لیگ ن کے دور کی آڈٹ رپورٹ پر سپریم کورٹ میں طلب کیا جانا سمجھ سے بالا تر ہے اور ان سے بطور ریلوئے وزیر مستعفی ہونے کی اعلیٰ عدلیہ کی خواہش بھی حیرت انگیزی میں اضافہ کر رہی ہے۔ عدالتی ازخود اختیار” سوموٹو”کا ماضی میں بے جا استعمال کیا گیا خصوصاً سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے سوموٹو نوٹس لینے کا ریکارڈ ہی قائم کیا۔یہ عدالتی اختیار بعدازاں دیگر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے بھی استعمال کیے۔اعلیٰ ماہرین قانون کو اس اختیار کے بے جا استعمال کے لیے ضابطہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس اختیار کا استعمال کم سے کم اور شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لایا جا سکے کیونکہ اعلیٰ عدلیہ میں شامل کچھ عناصر اس اختیار کو لیکر حکومت، اور اداروں کو آپس میں الجھا رہے ہیں۔
دوسری طرف عوامی رائے یہ تاثر بنا رہی ہے کہ ایک عدالت ملزم کو گرفتارکرنے کا حکم دیتی ہے تو دوسری اسے رہا کرنے کا حکم دے دیتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کی صحت کو لے کر حکومت پر اپنا دبائو اس حد تک بڑھایا کہ حکومت سے نوازشریف کی زندگی کی ضمانت مانگی جانے لگی۔ کیا کوئی حکومت کسی شخص کی زندگی کی ضمانت دے سکتی ہے؟ یقینا جواب نہ میں ہے لیکن دوسری طرف انصاف کے ادارے کا دبائو بھی سمجھ سے باہر تھا۔ عدل وانصاف کی فراہمی کی رفتار کا یہ عالم ہے کہ دادا کا مقدمہ پوتا لڑ تاہے۔ کئی اشخاص پھانسی چڑھ جانے کے بعد بے گنا ہ قرار دیئے گے۔اعلیٰ عدالتوں کے منصف اپنی ذاتی مشہوری کے لیے آئے روز دوران سماعت ایسے ریماکس دیتے ہیں جو اگلے دن اخبارات کی سرخیاں بنتے ہیں۔
دوسری طرف کراچی سرکلر ریلوئے میں حکومت سند ھ وزات ریلوئے کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی ۔ آٹھ سے دس کلومیڑریلوئے ٹریک ایسا ہے جہاں ریلوئے لائن پر قبضہ گروپ براجمان ہے اور لوگ گھر بنا کر رہ رہے ہیں جن سے زمین واگزار کرانے کے لیے سندھ حکومت کا تعاون درکار ہے لیکن سندھ حکومت اس معاملے پر ریلوئے سے تعاون نہیں کر رہی ۔ اب اس معاملے کو لے کر شیخ رشید کی کلاس لینا یقینا دانش مندی نہیں ہے۔ شیخ رشید نے ریلوئے کا چارج سنبھالنے کے بعد دن رات ایک کر کے ریلوئے کو خسارے سے نکالنے کی سعی جاری رکھے ہوئی ہے ۔ ایم ایل ون کا پی سی ون منظور ہو چکا ہے اور اب ٹینڈر جاری ہونا ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ اس معاملے کو بلاوجہ اٹھاکر حکومتی معاملات میں مداخلت کی مرتکب ہو رہی ہے جسکی وجہ سے ترقیاتی کاموں میں مندی کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔ایسے کئی سرکاری اداروں کے معاملات عدالتی اسٹے آرڈرز کی وجہ سے رکے پڑے ہیں جس سے عوام کو سہولیات کی فراہمی التوا کا شکارہے۔وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ ترقیاتی کاموں کی جلد از جلد تکمیل اور سہولیات کی فراہمی کے لیے صوبائی حکومتوں سے مشاورت کے لیے انہیں اعتماد میں لے تاکہ سیاسی پوائنٹ سکورننگ کے بجائے عملی اقدامات کیے جا سکیں۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ریلوئے میں کرپشن، لوٹ مار اور اقرباء پروری اپنے عروج پرتھی۔ملازمین کو چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھا کر سیاسی انتقام لیا جاتا تھا۔ شیخ رشید جوانوں کی طرح کام کرنے کے عادی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرا عظم عمران خان نے ان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ریلوئے کی وزارت بغیر مانگے عطا کی۔ عوام سستی اور آرام دہ سفری سہولیات چاہتی ہے جو ایم ایل ون اور دیگرمنصوبے جلد از جلد مکمل کرنے پرہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اور یہ منصوبے تبھی جلد مکمل ہو نگے جب ان کی راہ میں حائل غیرضروری رکاوٹوں کو دورکیا جائے گا۔