تحریر : سید توقیر زیدی کراچی کے علاقے لانڈھی کے قریب جمعہ گوٹھ کے مقام پر دو ٹرینوں کے خوفناک تصادم کے نتیجہ میں جمعرات کے روز 21 مسافر جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے۔ ان میں 30 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز فرید ایکسپریس جمعہ گوٹھ ریلوے سٹیشن پر کھڑی تھی کہ ملتان سے آنے والی زکریا ایکسپریس نے پیچھے سے ٹکر مار دی جس سے فرید ایکسپریس کی تین بوگیاں اور زکریا ایکسپریس کا انجن مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اس حادثے کی آزادانہ تحقیقات کے احکام جاری کر دیئے ہیں۔ صدر مملکت، وزیر اعظم، گورنروں، وزرائے اعلیٰ سمیت مختلف قومی و سیاسی قائدین نے دو مسافر ٹرینوں کے اس المناک حادثہ پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوء اس حادثے کی بے لاگ تحقیقات کا عندیہ دیا ہے۔ حادثے کے بعد پاک فوج کی ریسکیو ٹیم امدادی کاموں کیلئے جائے حادثہ پر پہنچ گئی جنہوں نے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے کام میں حصہ لیا، جاں بحق ہونے والوں میں فرید ایکسپریس کا گارڈ محمد حسین بھی شامل ہے جبکہ ڈرائیور محمد رفیق کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ٹرین حادثے کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ حادثہ زکریا ایکسپریس کے ڈرائیور اور کو ڈرائیور کی غفلت سے پیش آیا جنہوں نے پہلے پیلا سگنل اور پھر سرخ سگنل پر ببھی ٹرین کی رفتار روکے بغیر عبور کر لیا حالانکہ یہ سگنل دیکھ کر انہیں خطرہ بھانپ جانا چاہئیے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد متذکرہ ڈرائیور اور کو ڈرائیور جائے وقوعہ سے بھی فرار ہو گئے ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔ انہیں ہر صورت کیفر کردار کو پہنچایا جائے گا۔
یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں آنے سے قبل پیپلز پارٹی، اے این پی اور دوسرے اتحادیوں کے دور حکومت میں پاکستان ریلوے زبوں حالی کی انتہاء کو پہنچ گئی تھی، اکثر ریلوے انجن ناکارہ اور بیشتر مسافر ٹرینیں بند ہو گئی تھیں اور جو ٹرینیں پٹڑی پر چل رہی تھیں وہ بھی ریلوے کی کسمپرسی کی منہ بولتی تصویر نظر آتی تھیں جن کا مقررہ وقت سے 12، 14 گھنٹے تاخیر سے پہنچنا معمول بن چکا تھا۔ اس وقت کے وزیر ریلوے اور اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے ریلوے کی حالت بہتر بنانے کی جانب دانستہ توجہ نہ دی اور جب ان کی جانب سے ریلوے کے متعدد روٹس کی نجکاری کا اشتہار دیا گیا تو ریلوے کو نظر انداز کرنے کی ان کی پالیسی سے یہی عقدہ کھلا کہ وہ ریلوے کی نجکاری کے ذریعے اپنے من پسند لوگوں کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں جبکہ نجکاری کی فضا سازگار بنانے کیلئے ہی پاکستان ریلوے کو تباہی کی جانب دھکیلا گیا ہے۔
اسی طرح نجی ٹرانسپورٹر حضرات کو بھی ریلوے کی تباہ کاری سے فائدہ ہو رہا تھا کیونکہ لوگوں نے ٹرینوں پر سفر کرنا چھوڑ دیا تھا۔ کچھ ایسی ہی بے ضابطگیاں ریلوے کی قیمتی اراضی کو اونے پونے داموں اپنے من پسند لوگوں کو لیز پر دینے کے معاملہ میں بھی سامنے آتی رہیں۔پاکستان ریلوے کی اس ناگفتہ بہ صورتحال میں خواجہ سعد رفیق نے وزارت ریلوے کا قلمدان چیلنج سمجھ کر قبول کیا جنہوں نے اپنی انتھک محنت اور لگن کے ساتھ ریلوے کے اس مردہ گھوڑے میں نئی روح پھونک دی، انہوں نے ناکارہ انجنوں اور ٹرینوں کی خستہ حال بوگیوں کی مرمت اور تزئین و آرائش کا ہدف مقرر کیا اور ٹرینوں کی آمدروفت کے شیڈول کو بھی عملی جامہ پہنانے کا بیڑہ اٹھایا جس کیلئے انہوں نے ریلوے کے دیانتدار اور جی دار افسران اور اہلکاروں کو اگلی صفوں میں لا کر ان کے ذریعے ریلوے کی بحالی اور اصلاح کے عملی اقدامات اٹھانا شروع کئے چنانچہ اس کا مثبت نتیجہ ان کی وزارت کے پہلے سال میں ہی برآمد ہو گیا۔ٹرینوں میں مسافروں کیلئے سہولتیں بھی بہتر ہو گئیں اور شیڈول کے مطابق مقررہ وقت پر ٹرینوں کی آمدروفت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
Saad Rafique
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ریلوے کرایوں میں معقول کمی کر کے ریلوے کے سفر سے مایوس ہونے والے مسافروں کو ریلوے کی جانب واپس آنے کی ترغیب دی نتیجتاً ریلوے کا خسارہ بھی بتدریج کم ہونے لگا اور مسافروں کو ریلوے کے ذریعے سفر کی مناسب سہولیات بھی دستیاب ہونے لگیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے چین کے ساتھ نئے انجنوں اور بوگیوں کے حصول کا معاہدہ بھی کر لیا جس پر عملدرآمد سے ریلوے کی حالت مزید سنور جائے گی اور کارکردگی مزید بہتر ہو جائے گی جبکہ خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کی قیمتی اراضی قبضہ گروپوں کے قبضے چھڑوا کر بھی پاکستان ریلوے کو اقتصادی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل بنادیا ہے، تاہم ان کے تعمیری اصلاحی اقدامات سے ریلوے کی حالت بہتر ہوئی ہے تو بدقسمتی سے ریلوے حادثوں میں اضافہ ہونے لگا ہے جس میں اگرچہ ریلوے کے متعلقہ افسران اور ڈرائیوروں کی غفلت کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے تاہم ریلوے حادثوں کو روک نہ پانے کی ذمہ داری وزیر ریلوے کے کندھوں پر ہی آتی ہے۔
یہ صورتحال ان کی بدقسمتی سے ہی تعبیر ہو گی کہ ان کی جانب سے وزارت ریلوے کا قلمدان سنبھالنے سے اب تک مسافر ٹرینوں اور مال گاڑیوں کو چار المناک حادثوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دو ماہ قبل ستمبر میں ملتان میں پشاور سے کراچی جانے والی عوام ایکسپریس اور مال گاڑی میں تصادم ہوا جس میں چار افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ اس سے قبل نومبر 2015ء میں بلوچستان کے ضلع بولان میں ہونے والے ٹرین حادثے میں 19 مسافر جاں بحق ہوئے۔ یہ حادثہ کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس کے بریک فیل ہو جانے کے باعث آب گم کے مقام پر پیش ا?یا تھا جس میں ٹرین کے انجمن سمیت متعدد بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔
اسی طرح گزشتہ برس جولائی میں پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ میں ہیڈ چھنانوالی کے قریب پل ٹوٹنے سے فوجی دستوں کو لے جانے والی خصوصی ٹرین کی چار بوگیاں نہر میں گر گئی تھیں جس کے باعث متعدد فوجیوں سمیت 19 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اب گزشتہ روز کراچی میں پاکستان ریلوے کو موجودہ دور حکومت کے چوتھے بڑے حادثے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس حادثے کا درد متاثرین کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس لئے زیادہ محسوس ہو رہا ہے کہ وزیر ریلوے دو ٹرینوں کے باہم ٹکرانے کے اس المناک حادثے کی خبر پا کر بھی اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے ساتھ کھڑے ہو کر پانامہ لیکس میں ملوث وزیراعظم کا دفاع کرتے نظر آئے اور انہوں نے فوری طور پر جائے حادثہ پر جانے کی ضرورت محسوس نہ کی جبکہ پاک فوج کے جوانوں نے فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچ کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
اگرچہ وزیر ریلوے نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ٹرین حادثہ پر افسوس کے اظہار کو ہی فوقیت دی اور حادثے کی تفصیلات بتاتے ہوئے حادثے کی آزادانہ تحقیقات کا بھی حکم دیا تاہم وہ حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد فوری طور پر جائے حادثہ کی جانب روانہ ہو جاتے اور موقع پر پہنچ کر غفلت کے مرتکب ریلوے حکام اور اہلکاروں کے خلاف تادیبی اقدامات اٹھاتے تو اس سے ان کی بطور وزیر ریلوے کارکردگی اور نیک نامی میں مزید اضافہ ہوتا۔ اس کے برعکس رحیم یارخان کے تنظیمی دورے پر روانہ ہونے والے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی روانگی کے شیڈول میں رد و بدل کیا اور ریلوے حادثہ میں زخمی ہونے والے مسافروں کی عیادت کیلئے جناح ہسپتال کراچی آ گئے۔ جہاں انہوں نے یہ بیان بھی دیا کہ ٹرینوں کے اس المناک حادثے پر ہرگز سیاست نہیں کریں گے۔
آج وفاقی حکومت بالخصوص وزیر ریلوے کو اسی تناظر میں عمران خان اور دوسرے اپوزیشن لیڈران کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ اگر اب حادثے کی تحقیقات میں کسی قسم کی غفلت و کوتاہی نہ ہونے دی جائے اور شفاف انکوائری کے ذریعے حادثے کے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں سخت سزا کے ذریعے عبرت کا نشان بنا دیا جائے تو اس سے بھی ریلوے کی اصلاح احوال میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ اگر ریلوے کے سٹاف کی کمی ہے جس کے باعث پھاٹک کھلے رہنے سے بھی حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں اور سگنل کے اشارے اور کانٹا بدلنے کی غلطیاں بھی المناک حادثوں کی نوبت لے آتی ہیں تو وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو سٹاف کی مطلوبہ تعداد ضرور پوری کرنی چاہئیے۔ انہوں نے ریلوے کی بحالی کا جو چیلنج قبول کیا ہے اس میں سرخروئی کیلئے انہیں ایسے عملی اقدامات بھی بہرصورت اٹھانا ہوں گے جن سے ریلوے حادثوں پر موثر قابو پایا جا سکے اور کم از کم جانی نقصان نہ ہونے دیا جائے۔