تحریر : سید عارف سعید بخاری محکمہ ریلوے کی کارکردگی رفتہ رفتہ سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے،محکمے کے غیر ذمہ دارانہ روئیے کی بدولت گذشتہ چند سالوں میں ٹرینوں کے متعدد حادثات ہو چکے ہیں جس میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔لودھراں میںریلوے پھاٹک کھلا ہونے کی وجہ ہزارہ ایکسپریس رکشوں پر چڑھ دوڑی جس کے نتیجے میں گھر سے سکول جانے والے7بچوں سمیت 8افراد جاں بحق ہو گئے۔پھاٹک پر تعینات اہلکاروں کی غفلت کی وجہ سے کئی گھرانوں کے چراغ گل ہو گئے ۔ والدین کو کیا معلوم تھا کہ اُن کے بچے سکول سے واپس نہیں لوٹیں گے۔ ریلوے کراسنگ پر پھاٹک نہ ہونا یا پھاٹک ہوتے ہوئے کسی بھی اہلکار کی غفلت کے نتیجے میں ہونے والے حادثات میں انسانی جانوں کا ضیاع بہت بڑا المیہ ہے۔ بیشک !موت ایک اٹل حقیقت ہے اس سے کسی فرار ممکن نہیں۔موت نے ایک دن آناہی ہے گو کہ اس کا ایک وقت مقرر ہے لیکن کسی انسان کو یہ پتہ نہیں کہ کب فرشتہ ء ا جل اُسے آکر دبوچ لے ۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں ہو سکتی ۔آئے روز ملک میں ایسے حادثات سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے ۔ تیز رفتاری ، لاپرواہی اور غفلت بھی حادثات کا بنیادی سبب ہیں۔
ایسے مقامات کہ جہاں کراسنگ پر پھاٹک موجود نہیں وہاں پبلک سروس اور دیگر گاڑیوں کے ڈرائیورحضرات احتیاط سے کام نہیں لیتے ۔اور حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ٹرین کوئی ایک دم سے تو نہیں آتی ۔اس کے آنے کا اکثر جگہوں پرمقامی لوگوں کو پہلے سے علم ہوتا ہے کہ ٹرین نے کس وقت گذرنا ہے ۔ ٹائم میں کمی بیشی ہو سکتی ہے ۔لیکن ٹرین نے آنا ہی ہوتا ہے ۔ ایسے میں جلدباز ڈرائیور حضرات اس خیال سے اپنی گاڑی پھاٹک سے گذارنے میں ذرا تامل نہیں کرتے کہ گاڑی نکل ہی جائے گی ابھی تو ٹرین دور ہے ۔۔اسی بے وقوفی کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہو جاتا ہے بلکہ خود ڈرائیور حضرات بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔۔اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ موت کا فرشتہ انہیں اُس مقام پر پہنچا دیتا ہے جہاں اُس نے کسی کی روح قبض کرناہوتی ہے اور وہ لمحہ ایسا ہوتا ہے کہ بسا اوقات موت کی منزل کے مسافر کو اس وقت کوئی ٹرین نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی ٹرک یا بس دکھائی دیتی ہے۔
ہماری یہ روایت بن چکی ہے کہ ٹرین حادثہ ہو یا کوئی اور سانحہ رونماء ہو جائے تو حکومت کے ذمہ داران ایک مذمتی بیان جاری کرتے ہیں ۔ متاثرہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں ۔اُن کیلئے سرکاری امداد کا اعلان کیا جاتا ہے۔ حادثے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہیں ۔اور بس ۔۔۔۔اُس کے بعد اگلے حادثے تک خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ حادثے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جاتا ہے اور نہ ہی آئندہ حادثات کی روک تھام کے لئے کوئی اقدامات کئے جانے کی تدبیر کی جاتی ہے ۔وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے بھی حسب روایت سانحہ لودھراں کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اورسانحہ پر بڑے گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے ۔ ادھر لودھراں حادثے کے بعد متعدد ٹرین ڈرائیورز نے افسران کے روئیے سے دلبرداشتہ ہو قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیلئے درخواستیں دینا شروع کر دی ہیں اُن کا کہنا ہے کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں نچلے طبقے کو قصوروار ٹھہرا کر افسران کو بچا لیا جاتا ہے جبکہ چھوٹے عملے کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا۔
Saad Rafique
وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق کی سیاسی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے ،اُن سے قوم کو بہت سی توقعات وابستہ تھیں کیونکہ وہ کئی سیاسی رہنماؤںاور وزراء کے مقابلے میں کافی اچھی شہرت کے مالک ہیں ۔ اصولوں پر مبنی صاف ستھری سیاست اُن کی پہچان رہی ہے ۔کرپشن کے حوالے سے بھی کوئی اُن پر انگلی نہیں اٹھا سکتا کیونکہ اُن کا ماضی بے داغ ہے ۔ لیکن جب سے انہوں نے وفاقی وزیر ریلوے کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں ایک طرف” کرپٹ مافیا” اُن کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی سازشیں کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا دوسری طرف وزارت کا چارج سنبھالنے کے بعد سے اُن کی تمام ترتوجہ ریلوے کا قبلہ درست کرنے کی بجائے حکومتی زعماء کے کارہائے نمایاںکے دفاع پر مرکوز ہیں۔اس لئے اُن کا زیادہ وقت سیاسی مخالفین کو زچ کرنے پر صرف ہورہا ہے ۔گوکہ یہ کام سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشیداورصوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے سنبھال رکھا تھا ۔پرویز رشید تو روزانہ کی بنیاد پر عمران خان سمیت دیگر سیاسی مخالفین کی الزام تراشیوں کا جواب دینا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے جبکہ رانا ثناء اللہ اس مہم میں ہر اوّل دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔اپنی بے پناہ خدمات کے باوجود پرویز رشید کو تو بوجہ وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اس لئے اب یہ کام رانا ثناء اللہ کے ساتھ ساتھ وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگ زیب صاحبہ بخوبی نبھا رہی ہیں ۔اس وقت لیگی قائدین کی اکثریت کو ”عمران خان فوبیا” ہو چکاہے ۔ پانامہ لیکس کے معاملے میں تمام صورتحال روز اوّل سے بالکل صاف تھی کہ اس کیس میں کچھ نہیں ہوگالیکن پھر بھی پاکستان میں حق و انصاف کے علمبردار رہنماء عمران خان بضد ہیں کہ وہ ”پانامہ لیکس” کیس میں سرخرو ہوں گے اور لٹیروں سے ایک ایک پائی کا حساب لیں گے۔ یہ کیس قوم کو بے وقوف بنانے اور وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔ اس لئے اس قسم کے کھیل بند کر دینے چاہئے ۔ قوم حقیقی احتساب کی خواہاں ہے ۔ جبکہ یہاں توآوے کا آوا ایسا بگڑچکا ہے کہ کوئی ایک بھی شعبہ ایسا باقی نہیں بچا کہ جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ یہاں انسان نہیں بلکہ فرشتے پائے جاتے ہیں ۔ریلوے کی مسلسل تباہی کسی المیے سے کم نہیں ۔دنیاکے ترقی یافتہ ممالک ان باتوں سے بہت دور جا چکے۔ جدید سائنسی دور میں انسان اپنے عقل و شعور سے چاند اور سیاروں کو تسخیر کرنے کیلئے اپنا دماغ، پیسہ اور تمام وسائل بروئے کار لا رہا ہے ۔ اور ایک ہم ہیں کہ آج تک ہم سے ریلوے کا نظام درست ہو سکا اورنہ ہی ،واپڈا ، سوئی ناردرن اور پی آئی اے جیسے اداروں کو ہم سدھار سکے۔
آخرکب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔دنیا کے کسی ملک میں بھی سنگین حادثے کی صورت میں وہاں کا وزیر فوراً مستعفٰی ہو جاتا ہے ،لیکن ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت نہیں ،ملک تباہ ہوجائے یا اداروں کا جنازہ نکل جائے ہم ”کرسی” سے الگ ہونا گوارا نہیں کرتے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کے ذمہ داران ملک میں پائی جانے والیء خرابیوں کو دور کرنے کی تدبیر کریں ۔ ہماری وفاقی وزیر ریلوے سے بھی گذارش ہے کہ وہ خیبر سے کراچی تک ریلوے کے سفر کو آرام دہ اور محفوظ بنانے کیلئے کوئی واضح پالیسی اپنائیں ۔”ریلوے کراسنگ ”پر تعینات عملے کی غفلت اور لاپرواہی کا سخت نوٹس لیا جائے اور اُن کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کو یقینی بنایا جائے اس کے ساتھ پاکستان بھر میںجہاں جہاں ریلوے کراسنگ پر پھاٹک موجود نہیں وہاں پھاٹک بنائے جائیں اور ریلوے سسٹم کو بہتر بنانے کیلئے بھی اقدامات کئے جائیں ۔عوام کو بھی چاہئے کہ وہ ریلوے کراسنگ سے گذرتے ہوئے اپنے جذبات پر کنٹرول کریں ۔جلد بازی سے اپنے ساتھ دوسروں کو بھی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔صبرو تحمل اچھی بات ہے معمولی سی غفلت بڑے حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے ۔اس لئے ہمیں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email:arifsaeedbukhari@gmail.com