شدید بارشوں نے کراچی میں تباہی کا منظر پیدا کردیا ہے۔ ہر شخص اہالیان کراچی کی بے پناہ تکالیف پر دکھی ، پریشان اوران کے لیے دعا گو ہے ۔ Having said this۔ گزارش ہے کہ بات ایسی بھی نہیں کہ بس سرسری طور پر ذکرکرے آگے گزر جائیں ۔ پاکستان بنا تو کراچی ملک کا پرامن ترین اورخوب صورت وپرسکون ماحول والا شہر تھا۔ بابائے قوم کا شہر ہونے کے علاوہ یہ ملک کا دارالحکومت اوراکلوتا سمندری شہر تھا ۔ ہجرت کے نتیجے میں دہلی ، لکھنؤ اورعلی گڑھ جیسے اعلیٰ ترین تہذیبی مراکز سے شان دار انسان ترجیحاً یہاں آکر بسے اورکراچی کو ظاہری وباطنی حسن وکمال کا مرقع وگہوارہ بنا دیا۔ آبادی چند لاکھ نفوس پر مشتمل تھی اورشہر کی اُٹھان خوب صورت اوردلفریب تھی تاہم ساٹھ کے عشرے میں دارالحکومت کی تبدیلی نے شہر کے نظام کو بہت متاثر کیا مگر کراچی نے بطور غریب پرور وبندہ پرور شہر ملک کے ہر گوشے سے آنے والوں کے لیے اپنی آغوش کھلی رکھیاورخوش دلی سے سب کا استقبال کیا۔ مہاجر ہوتے ہوئے بہترین انصار کے کردار کا مظاہرہ کیا ۔
سماج پر اسلام کی بابرکت تعلیمات کا سایہ چھایا ہوا تھا۔ اس وقت یہ ملک کا سب سے بڑا مہربان اورمیزبان شہر تھا اورمحبت کی زبان میں اسے ”منی پاکستان”کہا جاتا تھا ۔ کراچی کی سیاست وخدمت کے میدان کے کتنے ہی لوگ پورے ملک میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ چند نام ہی دیکھ لیں : حکیم محمد سعید ، مولانا ظفراحمد انصاری، شاہ احمد نورانی ، پروفیسر غفور احمد ، پروفیسر خورشید احمد ، مولانا یوسف بنوری ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ، ڈاکٹر سلیم الزمان ، سلیم احمد غرض شرافت وتہذیب کے کیسے کوہِ گراں تھے یہ لوگ…یہ تو چند نام ہیں ۔ مگر پھر کیا ہوا؟؟
ہمارا ازلی دشمن بھارت یہ سب کچھ کیسے برداشت کرسکتا تھا؟ اس کی زہریلی چالیں جاری رہیں اوراسی کے عشرے میں اس نے انسانی روپ میں ایک ایسا زہریلا وحشی درندہ تیار کیا جس میں کراچی کی تباہی وبربادی کے لیے کئی ایٹم بم فٹ کردئیے گئے تھے ۔ اس ”گائیڈڈ میزائل اژدھے ”نے مہاجر قوم کی عصبیت اُبھار کر ایم کیو ایم کا پلیٹ فارم بنایا اورلاکھوں کراچیوں ،بوڑھوں ، جوانوں ، مردوخواتین کو اپنے طلسم ہوش ربا کا شکار کرکے ان کی نسلوں کو تباہ وبرباد کیا اوراس ”کارکردگی ”کے انعام میں برطانوی سامراج کی راج دہانی میں محفوظ پناہ گاہ میں جا بیٹھا جہاں سے شر انگیزی جاری رکھ سکے جو اُس میں بھر دی گئی تھی ۔ اس کے نتیجے میں مہاجرین کی اولاد میں ”انسانی قصاب”بنیں جن کا پراڈکٹ بوری بند لاشیں تھا اوراس قتلِ انسانی پر بھارتی درندہ ایجنٹ اُن کو شاباش دیتا تھا ۔
نہ جانے کتنے صولت مرزے ، کتنے عزیر بلوچ اورکتنے کتنے سینکڑوں یا ہزاروں اسنانوں کے قاتل مجرم لیڈروں کی آنکھوں کے تارے اوروی وی آئی پی بنے …مگر کراچی کا اندر باہر تباہ ہوچکا تھا۔ کراچی کی روح کے ساتھ جسم بھی کرچی کرچی ہوچکاتھا۔پانی کی نکاس کے نالے بھر دئیے گئے اورحرام کی وصولیاں بھارتی کارندے کے قدموں پر نچھاور ہوتی رہیں ۔تب علامہ اقبال کی روح نے پکار پکار کر کہا کہ:
فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
اے اہلِ کراچی ، تمہاری انفرادی خطائیں تو اللہ نے معاف فرمائیں مگر تمہارا اجتماعی ناقابلِ معافی جرم (الطاف پروری وبندگی ٔالطاف) قابلِ معافی معمولی غلطی نہیں ۔اہلِ کراچی اپنی خطائوں کا اعتراف کرکے اللہ سے صدق دل سے معافی مانگیں اورجرائم الطاف کے تمام شریکوں سے مکمل نجات حاصل کرکے اپنے عظیم مہاجر آبائو اجداد کی تہذیب واُسوہ کی جانب واپس آئیں ۔ حرص وہوس کے مارے سیاسی لیڈروں کو قریب بھی نہ آنے دیں ۔ ان شاء اللہ ان شاء اللہ ان شاء اللہ کراچی اپنی اصل کی جانب واپس آئے گا۔
Allama Iqbal
ضرور آئے گا۔لمحۂ موجود حضرتِ علامہ کے فرمان کی روشنی میں قدرت کی جانب سے اہلِ کراچی کے لیے تازیانہ بھی ہے اوردعوت فکرواصلاح بھی ۔ تمام ”سیکٹر انچارج”تنہائیوں میں اپنے اللہ سے اپنے ظلم وستم اورخوں ریزیوں کے لیے معافی مانگیں ۔ گڑاگڑ کر توبہ کریں ۔ وہ ربِّ کریم ہے ، سچی ترپ ہوگی تو ضرورمعاف فرما دے گا ۔ تب تاریکیاں چھٹتی جائیں گی ، کامرانیاں قدم بوسی کرتی جائیں گی …کراچی کے اس طوفان وطغیانی میں آنسوئوں کی ندامت کے ساتھ خود کردہ مظالم کے گناہ بھی توبہ کے سہارے بہا دیجئے ۔ ایک صاف ستھرا ماضی والا کراچی بننا ظاہر ہوجائے گامگر آصف والطاف کی راہوں سے بچ کر چلنا ہوگا۔ کراچی کو بوری بند لاشوں کی طرح کاکے اورٹپیوں نے بھی برباد کیا ہے ۔ ان کرداروں کو ہمیشہ کے لیے رخصت کرنا ہوگا۔