تحریر : انجینئر افتخار چودھری میں نے بہت سے ادیب لکھاریوں کو پڑھا ہے۔ یقینا اور بھی بھی بہت اچھے لکھاریو ہوں گے۔ منشی پریم چند بھی کمال لکھتے تھے راجندر سنگھ بیدی نے بہت اچھا لکھا پتہ نہیں کیوں اے حمید کبھی بھی میری یادوں سے محوش نہیں ہوتے بارش سما وار خوشبو یہ تین لفظ جب بھی بارش ہوتی ہے مجھے یاد آتے ہیں موسم کبھی بھی مہربان ہو سردی کی جھڑیوں میں یا ساون کی تیز بارشوں میں میرا جی چاہتا ہے کہ اے حمید اسے لکھیں اور میں پڑھتا جائوں۔ پاکستان میں جینے والا رہنے والا اور خاص طور پر پنجاب کا رہائیشی بنیادی طور پر نوائے وقتیا ہے۔ مجھے اپنے بچپن کی حسین یادوں میں اے حمید سے بڑا پیارا لکھاری کوئی اور نہیں دکھائی دیتا۔ وہ بنیادی طور پر فطرت کا شاعر تھا لکھتا نثر تھا مجھے ان کی ذاتی زندگی کا کوئی علم نہیں البتہ اتنا پتہ ہے امرتسر سے لاہور آئے تھے۔ان لوگوں کے قلم میں پیار محبت کے زمزمے بہتے نظر آتے ہیں۔
جب کبھی بھی موسم سرد یا گرم ہو مجھے گجرانوالہ یاد آ جاتا ہے۔بارش میں تو وہ شہر دلفریب کھلے دل والوں کی بستی بہت یاد آتی ہے۔کہتے ہیں انسان صرف پندرہ سال جیتا ہے باقی تو ان سالوں کو یاد کر کر کے مرتا اور جیتا ہے۔ ضیاء شاہد نے جب بہاول نگر کی بات کی لکھا تو مجھے یاد آیا کوئی کہیں بھی ہو اپنے بچپن کو ضرور یاد کرتا ہے ،میں شرارتیوں کے شہر گجرانوالہ میں پلا بڑھا۔ہمارے ایک دوست ہیں ان کا نام نور جرال ہے وہ بھی میری طرح اسی شہر کو یاد کرتے کرتے کشمیر کالونی سے جدہ اور پھر وہاں سے امریکہ چلے گئے۔ دو شہر کبھی بھلا نہ پائوں گا ایک گجرانوالہ اور دوسرا جدہ ایک میں بچپن اور دوسرے میں جوانی بتا دی ۔یقین کیجئے جدہ نہ مجھ سے نکال دیا جائے تو ایک کھلنڈرہ گجرانوالہ نکل آئے گا۔میرے دور کا گجرانوالہ ایک پسماندہ شہر تھا گندگی سے بھرپور اس شہر میں کچھ بھی نہیں تھا چھوٹے چھوٹے کارخانے مزدوروں کی اضافی بستیاں ۔باغبانپورہ جدی ایک بستی تھی۔اصل میں اس کا نام بگوان پورہ ہو گا ساتھ ہی گورونانک پورہ ہے اور اس سے جڑا محلہ رسول پورہ ہے۔ہندو سکھ مسلمان اپنے اپنے ناموں کے ساتھ آباد ہوتے رہے ۔شہر میں آبادی حاکم رائے بھی ان سے جڑی بستی تھی محلہ تھا۔
آج کا گجرانوالہ ایک جدید شہر بن گیا ہے خرم دستگیر سے لاکھ اختلاف سہی مگر اس شہر کا منہ اسی نوجوان نے دھویا ہے ویسے بھی شہر کی تعمیر و ترقی میں سارے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔جس دن ہمیں یہ سمجھ آ گئی کہ سڑکیں پل ترقی کا اہم ستون ہیں تو ہماری بہت سی مشکلات دور ہو جائیں گی۔قومیں پلوں سے نہیں بنتیں مگر سڑکیں نہ ہوں تو اچھے اسکولوں اچھے ہسپتالوں تک جاتے جاتے مریض مر جاتے ہیں میری ماں پمز میں ساتھ گھنٹوں میں پہنچی تھیں اب ڈیڑھ گھنٹے میں پمز سے نلہ پہنچا جا سکتا ہے۔یہ فرق ہوتا ہے ذرائع آمد و رفت کا۔ انسان کے اندر کوئی زخم ہوتے ہیں جو وقت آنے پر ہرے ہوتے ہیں۔ان محلوں اور گلیوں میں جہا آپ پل کر جوان ہوتے ہیں یہ آپ کو زخم دیتے ہیں جو پھر کسی وقت اس موسم اور سمے میں ہرا ہو جاتا ہے۔آپ کو یقینا ایک خوشبو کی لہر اٹھتی محسوس ہوتی ہوگی اور اسے سونگھ کر آپ ماضی میں چلے جاتے ہوں گے۔
Engr Iftikhar Chaudhry
آج کئی دنوں سے میرے اندر کے زخم تازہ ہیں مجھے میرا گھر میرا گائوں میرا محلہ سعودی عرب کے شہروں میں گزارے ہوئے یہ موسم یاد آتے ہیں۔باغبانپورہ میرے رگ رگ میں ہے میں نے یہاں بچپن گزارا۔پہیل جماعت میں داخلہ لیا دوستوں کے ساتھ کھیل کر بڑا ہوا۔میرا جی چاہتا ہے میں اپنے دوستوں کے سارے غم لے لوں ان کو کبھی بھی مشکلات میں نہ دیکھوں کہتے ہیں اگر دل ایسا ہو تو جیب ایسی نہیں نصیبوں میں ہوتی۔کٹھور دلوں والے بھاری خزانوں کے مالک بنتے ہیں شائد اللہ کا یہی نظام ہو گا۔میں اے حمید کو چاہنے والا موسموں سے بہت پیار کرتا ہوں ،باغبانپورے کی سوہڑیوں کے دیہاڑے بڑے مزے کے تھے۔کچے کوٹھے کی چھت پر گرمیاں اور کمروں کے اندر رضائیوں میں دبک کر مونگ پھلی سے عیاشی کرنا ہمارے مشغلے تھے ایک بار گہوٹکی سندھ سے مرغیوں کا جوڑا لایا گولڈن مرغیوں کے اس جوڑے میں بلا کی خوبصورتی تھی۔مین انکے ساتھ کھیلتا رہتا ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک مرغی کی طبیعت خراب ہے میں نے سردیوں میں اسے ہیٹر کے سامنے رکھا۔بجلی کے ایک تار والا ہیٹر اور ان دو میں سے جو مرغی بیمار تھی اسے میں نے ابتدائی طبی امداد کے طور پراسے گرم کرنے کی کوشش کی مگر مرغی حرام ہوتے ہوتے حلال کر لی گئی۔
بے جی نے اسے پکایا گھر میں مشورے ہوئے کوئی شوربے والی اور کوئی بھنی ہوئی کھانا چاہتا تھا اس زمانے میں سادہ گوشت بھنا گوشت ہوا کرتا تھا یہ کڑاہی وغیرہ بعد کے زمانے کے نام ہیں۔یہاں ایک غم کی کیفیت تھی اور ادھر مرغی کو شکم سیری کے طریقوں پر بات چل رہی تھی اندر بیمار پئی آں بہار زندگی دے مل لگدے مرغی پک گئی سردیوں کے دن بارش ویہڑے میں سیڑھیوں کے نیچے باورچی خانہ دروازے میں داخل ہوتے ہی کھرا جسے غسل خانہ اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ خانہ تو تھا ہی نہیں ایک ہینڈ پمپ اور بس۔ رضائی میں بیٹھنے کے بعد ماں نے ایک لوہ چینی کی پلیٹ میں سالن دیا میں رو بھی رہا تھا اور کھا ئے بھی جا رہا تھا۔مزے کی بات ہے اپنے سامنے کسی کو کھانے بھی نہیں دیا۔سردیوں میں بارشوں کے لمبے سلسے اپنے اندر کیا خوبصورتیاں سمیٹے گزر گئے۔
ہم یہ دن کیسے گزرتے تھے والد صاحب کے پاس کوئلے کی ایجینسی تھی کوئٹہ سے ایک آدھ ٹرک آتا تھا چھوٹے چھوٹے کارخانہ دار ہم سے خرید کر لے جاتے تھے اس کا جو پائوڈر بچ جاتا تھا اسے گوبر میں ملا کر چھوٹی گول سے گیند بنایا کرتے تھے پھر جب وہ سوکھ جائیں تو اسے کھلی فضاء میں جلایا جاتا تھا۔گیس وغیرہ خارج ہو جاتی تو یہ چھوٹے سے گیند نما گولے بڑی دیر تک جلتے رہتے تھے۔لکڑی کا برادہ بھی استعمال کیا جاتا تھا لوہے کی انگیٹھی میں ڈنڈہ رکھ کر اس کی تہہ بنا لی جاتی اور اسے آگ لگا کر استعمال کیا جاتا۔ان دنوں کے کھانے بھی بڑے مزیدار تھے پوڑے خاص طور پر بنائے جاتے میدہ گھول کے اس میں گڑ ڈال کر ایک محلول تیار کیا جاتا اور اسے توے پر پھیلا کر مانیں بنا لی جاتی تھیں یا پوڑے۔ سچ پوچھیں جتنا غریب ہنستا ہے اتنا امیر نہیں۔ہمیں تو مزہ اس غربت میں آیا اس حال میں نہیں آتا اللہ تعالی سب کو مناسب ماحول دے حالات سب کے بہتر ہوں۔امجد اسلام امجد نے کیا خوب کہا تھا موسم اندر کا اچھا ہو تو سب اچھا ہوتا ہے۔