قدرت کا ثمر ہمارے لئے آفت کیوں؟

Rain

Rain

تحریر : ذوالقرنین ہندل

زمانہ قدیم میں بھی بارشوں کو نعمت سمجھا جاتا تھا۔مگر بے جا بارشیں لوگوں کے لئے زحمت کا باعث بھی بن جاتی تھیں۔دنیا میں دیگر مخلوقات کی نسبت انسان کو’اشرف‘ کا درجہ دیا گیا۔ اوربنی نوع انسان نے واقعی اپنے اشرف ہونے کا ثبوت دیا۔آج انسان اپنی ذہانت کی بدولت ٹیکنالوجی کے استعمال سے اللہ کی دی ہوئی بڑی نعمتوں سے مستفید ہو رہا ہے۔وقت کے ساتھ انسانوں کے رہن سہن میں بھی جدت آئی۔یہی وجہ ہے کہ آج لوگ ایسے علاقوں میں بھی متوازن زندگی بسر کر رہے ہیں، جہاں سارا سال بارشیں ہوتی ہیں۔

پاکستان میں مون سون کا سلسلہ جاری ہے۔مون سون ہواؤں، بادلوں، اور بارشوں کا ایک سلسلہ ہے۔جو موسم گرما میں ایشاء کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان میں بھی بارشوں کا باعث بنتا ہے۔یہ سلسلہ افریقہ کے مشرقی ساحلوں کے قریب اور بحر ہند کے اوپر گرمی کے باعث بننے والے آبی بخارات سے شروع ہوتا ہے۔ جو بعد ازاں بادلوں اور بارشوں کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔جون کے آغاز میں یہ سلسلہ سری لنکا اور جنوبی بھارت جیسا کہ (کیرالا اور تامل ناڈو وغیرہ) میں داخل ہوتا ہے۔پھر مشرق کی طرف نکل جاتا ہے۔اس سلسلے کا کچھ حصہ بھارت کے اوپر برستا ہوا کوہ ہمالیہ سے آ ٹکراتا ہے۔اور کچھ حصہ شمال مغرب کی طرف سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔جولائی کے درمیان میں مون سون کے بادل لاہور پہنچ جاتے ہیں اور پاکستان میں ساون کا آغاز ہوتا ہے۔

بارشیں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتیں۔یہ پانی کی قلت کو کم کرتی ہیں۔گرمی کی شدت کو کم کرتی ہیں۔زمین کی زرخیزی بڑھاتی ہیں۔فصلوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔سبزا، پھل اور پھول کسی طرح بارش سے وابستہ ہوتے ہیں۔وغیرہ۔یہی وجہ ہے کہ بارشوں پر بہت سے نغمات گائے اور فلمائے جاتے ہیں۔

لیکن راقم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے،بارش کو کسی اور ہی نظریے سے دیکھا ہے۔خاص کر مون سون کی بارشیں پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے نشیبی علاقوں میں تباہی کی علامت ہی تصور ہوتی ہیں۔قیام پاکستان سے اب تک ہم کم و بیش چالیس کے قریب سیلابوں کا سامنا کرچکے ہیں۔دیگر بار میرا گاؤں زیر آب آچکا ہے اور فصلیں برباد ہونا تو جیسے’سالانہ معمول‘ بن چکا ہے۔شاید! پاکستان میں دیگر قدرت کے ثمرات کی طرح بارش سے بھی استفادہ حاصل نہیں کیا جاتا۔بلکہ لوگوں کی بربادی لئے بارش کا پانی کھلے عام چھوڑ دیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں شہر و دیہات ندیوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔یہ سب ہماری غیر مستحکم جمہوری حکومتوں،اداروں اور نا مناسب منصوبہ بندی کی بدولت ہے۔

گزشتہ چند دنوں میں مون سون کی بارشوں کے باعث کم و بیش آٹھ سے دس لوگ مختلف حادثات میں جان کی بازی ہار گئے۔اور بیس کے قریب زخمی ہوئے۔ دریاؤں اورندی نالوں میں طغیانی سے کئی علاقے زیر آب آگئے۔کچے مکانات گر گئے۔لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں گزر گاہیں متاثر ہونے لگیں۔پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائڈنگ اور سیلابی ریلوں نے سیاحوں کے ساتھ علاقہ مکینوں کی بھی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا۔ملک بھر میں بجلی کے سینکڑوں فیڈر ٹرپ ہونے لگے۔بجلی کی ترسیل کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا۔زیر آب دیہاتیوں کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔مال مویشی بہہ رہے ہیں۔ لوگ نکل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔محکمہ موسمیات کے نزدیک مون سون کی بارشیں مزیدچند ہفتے وقفے وقفے سے برسنے کے امکانات موجود ہیں۔ماضی میں تو ہماری حکومتیں سیلابی صورتحال میں اپنی غفلتوں کی بدولت ملک کا بڑا نقصان کرچکی ہیں۔ مگر موجودہ حکومت کے پاس ایسی غلطیوں کو سدھارنے کا موقع موجود ہے۔

حکومتی نمائندوں اور اداروں کو بروقت شہروں میں سیورج یعنی ندی نالوں کی صفائی کرانا ہوگی۔انہیں مرمت کرانا ہوگا۔کئی ممالک میں تو سارا سال بارشیں ہوتی ہیں۔مگر وہاں نہ سیورج کا نظام غیر فغال ہوتا ہے،نہ کہیں بجلی کے فیڈر ٹرپ کرتے ہیں۔ہمیں اپنی سپلائی لائنز کو بہتر بنانا ہوگا۔اچھے اور معیاری سرکٹس لگانا ہوں گے۔ اگر مون سون سے چند ماہ پہلے ہی انتظامات مکمل ہو جاتے تو، بہت سے نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔

زرعی ممالک کے لئے تو بارشیں انتہائی مفید ہوتی ہیں۔ہمارے ہاں اگر دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح مزیدڈیم،بیراج اورلاگون بنائے جائیں تو، ہم نہ صرف زرعی رقبوں کے لئے مزید پانی جمع کرسکتے ہیں بلکہ بجلی کی پیداوار بھی بڑھا سکتے ہیں۔ہمارے ہاں نئی منصوبہ بندی تو دور کی بات، پرانے ندی نالوں کی صفائی کی نہیں کی جاتی۔یہی وجہ ہے کہ آج پنجاب کے مختلف علاقوں میں نالہ ڈیک، عیک، لئی اور دیگر نالے دیہاتوں کے دیہات بہا لے جاتے ہیں۔

’نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘کی طرف سے احتیاطی تدابیر کے پیغامات واقعی قابل تعریف ہیں۔مگر محض پیغامات کافی نہیں۔سیلابی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔آج ہم پانی کی قلت کا رونا روتے ہیں۔ہمارے بعض علاقوں میں پینے کے لئے پانی تک میسر نہیں۔ ہزاروں ایکڑ پانی کی کمی اور ترسیل کا نظام نہ ہونے کے باعث بنجر ہیں۔ہم نے سیلابی پانی کو جمع کرنے کے لئے کس سطح پر عملی اقدامات کئے ہیں؟ہم پانی جیسی نعمت کو ہر برس ضائع کرنے کے ساتھ، اس کی ہولناکیوں کا بھی شکار ہوتے ہیں۔

شاید! کفران نعمت کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہو۔دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے منصوبہ بندی ہورہی ہے۔مگر ہم آج بھی اپنے پرانے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ، سیلاب سے نبردآزما ہونے اور پانی کو جمع کرنے کے لئے بڑے عملی اقدامات اٹھائے۔تا کہ ہماری آئندہ نسلیں ان مسائل سے دو چار نہ ہوں۔اور پانی جیسی عظیم نعمت سے محرو م ہونے اور نقصان اٹھانے کی بجائے، مستفید ہوں۔

Zulqarnain Hundal

Zulqarnain Hundal

تحریر : ذوالقرنین ہندل