تحریر : محمد جواد خان ادیب و شاعر لوگ موسم ِ برسات کو رومانیت کے موسم کے طور پر اپنی تحاریر اور شاعر ی میں استعمال کرتے ہیں، مگر پاکستان میں جب بھی یہ موسم آتا ہے تو ہم اس کو سیلابی ریلی، تباہی، بربادی اور لامحدود جانی و مالی نقصان سے یا د کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ موسم برسات میں جدھر دیگر ممالک سکون و سکھ کی سانس لیتے ہیں کہ اب ہماری فصلیں اچھی پیدوار فراہم کریں گی ادھر ہم پاکستانی ہی کیوں اپنی فصلوں کو سیلابی پانیوں سے بچانے کی تدابیر سوچ رہے ہوتے ہیں۔
ملک پاکستا ن رب کریم کی عطا کر دہ انمول نعمتوں میں سے ایک ایسی نعمت ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہو گامگر ہم اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے بجائے ہر عمل سے ناشکری کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں، اس ناشکری میں نہ صرف ہمارے حکمران شامل ہیں بلکہ ان سے زیادہ ہم خود عوام اس ناشکر ی کا باعث ہیں۔ آبادی کے اضافے نے جدھر عالمِ دنیا میں زمینوں کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کیا تو اُسی طرح ہمارے ملک میں بھی آبادی نے زرعی و دیگر اراضی ناقابل تلافی نقصانات سے دو چار کیا ہے۔
Flood Water
آبادی کے اسی ناقابل گرفت اضافے نے ہم کو اس قدر مجبور کر دیا کہ ہم نے اب ندی نالوں کے اوپر تعمیرات ہی نہیں بلکہ دریائوں کے کنارے پر بھی پختہ تعمیرات سے پانی کے فطری و قدرتی بہائو کے راستوں کو روک کر اوپر سے جواب دیتے ہیں کہ جی یہ موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر ہے ۔۔۔ کیا عرصہ قدیم سے بارشوں کے سلسلہ نہیں چلتا آ رہا ۔۔۔؟؟؟ کیوں نہیں۔۔۔!!! مگر اس وقت قدرتی راستوں سے پانی آزادی کے ساتھ گزرتا تھا اور اس کے بہائو کو درخت کافی حد تک کمزور کر دیتے تھے اور ہم ہیں کہ دن رات درختوں کی بے دریغ کٹائی کر کے موسمیاتی تبدیلیوں کو قصور وار ٹھہرا تے ہیں ، اصل میں درخت پہاڑوں اور زمین کو آپس میں جوڑے رکھتے ہیں مگر درختوں کی ظالمانہ کٹائی کے سبب اور شجر کاری مہم سے مجرمانہ غفلت کے سبب زمین کی سطح انتہا درجے کی اسقدر کمزور ہو گئی ہے کہ برساتی پانی جب پہاڑوں سے اترتا ہے تو وہ اپنے ساتھ پہاڑ بھی بہالاتا ہے اور پانی میں پتھروں کی شمولیت سے ایسی خوفناک سنگباری ہوتی ہے کہ اپنے ساتھ کئی بستیاں اکھاڑ کر قیامت صغریٰ کا منظر پیش کرتا ہے۔
ان برساتی پانیوں سے تقریباََ تمام ہی صوبے وقتا فوقتا متاثر ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ہر کوئی اس تباہی کو قدرتی آفت سمجھ کر قبول کر تو لیتا ہے مگرکبھی کسی نے یہ غور تک کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ کہیں یہ قیامتِ صغریٰ ہماری اپنی غلطیوں کا نتیجہ تو نہیں۔۔۔؟؟؟کہیں ہم نے ہوس کے پجاری بن کر نئی بستیاں نالوں کے اوپر تو تعمیر نہیں کر دی۔۔۔؟؟؟ کئی ہم نے دولت کے نشے میں ایسی اراضی عام لوگوں میں فروخت تو نہیں کی جو برساتی نالوں کی زد میں آتے ہیں۔۔۔؟؟؟ کیا ہم نے درختوں کی بے دریغ کٹائی کے بعد متبادل شجر کاری کا کوئی منصوبہ بنایا ہے۔۔۔؟؟؟ کہیں ندی نالے ہمارے پھینکے گئے پلاسٹک کے لفافوں اور ڈسپوز ایبل برتنوں سے تو نہیں بھرا پڑا۔۔۔؟؟؟ صرف یہ ہی سب وجوہات کسی بھی وقت آبی تبائی کا سبب نہیں بلکہ ہماری بے حسی سب سے بڑا سبب ہے۔
ہم اور ہمارا ضمیر دونوں انتہائی گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں اور ہماری آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور پھر اس معاملہ میں ہمارا پڑوسی ملک جو ازل سے ہمارا جانی و مالی دشمن ہے وہ بھی ہماری مشکلات میں اضافہ اس وقت کر دیتا ہے جب شدید بارشوں و طغیانی کی صورت میں وہ بھی اپنے پانی ہمارے اوپر کھول دیتا ہے اور ہم بجائے کسی حکمت عملی کے صرف ٹی وی چینلز پر آکر تبصرے کر سکتے ہیں باقی کوئی ایسی تدابیر نہیں کہ اس پانی کو کیوں کر کیسے روکا جا سکے۔۔۔ ہمارے ہاں تو جو ڈیم بنے تھے بس وہ بنے ہی تھے اس کے بعد متنازعہ ڈیم کی تعمیر کے اوپر آکر کھڑے ہو گئے ہیں یہ نہیں کہ اور کسی جگہ پر کوئی اور ڈیم بنا کر اس تباہی مچانے والے پانی کو روکا جائے۔
Power Shortages
بجلی کی قلت کو ختم کیا جائے ۔۔۔آبپاشی کے پانی فراہمی کو یقینی بنایا جائے بس ہم کرتے ہیں تو صرف تبصرے اور کالا باغ پر بحث۔۔۔اور ادھر ایک طرف ہمارا پڑوسی ملک آئے روز ڈیم بنا کر ہمارے پانی روکنے کی روایا ت جاری رکھے ہوئے ہے اور دوسری جانب پچھلے دنوں اخبارات میں بھی آیا تھا کہ اب افغانستان دریائے کابل پر ڈیم بنانے کی سوچ میں لگا ہے۔۔۔ ایسے تمام معاملات میں ہم بڑے منصوبے کی تو سوچتے نہیں اور سوچتے بھی ہیں تو اس بات پر کہ ہم نے اب کے بار تصویریں کہاں اور کیسے بنانی ہیں۔۔۔؟؟؟آئیے ہم سب مل کر ان سیلابی ریلوں سے اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو محفوظ رکھیں۔
شاپنگ بیگ اور ڈسپوزایبل برتنوں کو تلف کریں ، ہماری حکومت کو چاہیے کہ ان کے اوپر پابندی لگائے، شجر کاری کی مہم کو جوش و خروش کے ساتھ چلایا جائے اور ہر آدمی کم از کم ایک درخت ہر سال لگائے اور اسی معاملے میں حکو مت کو بھی چاہیے کہ شجر کاری مہم میں عوام کے اندر شعور اجاگر کرے اور رہ گئی بات ڈیموں کی تعمیر کی تو حکومت اب ہوش کے ناخن لے اور سنجیدگی کے ساتھ اس مسلئے پر غور و فکر کرتے ہوئے ڈیموں کی تعمیرات کو یقینی بنائیں نہ کہ ووٹ بینک کے لیے صرف تبصرے۔۔۔۔